مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ جہاد کا بیان ۔ حدیث 999

جنگ میں حقیقی طاقت حق تعالیٰ کی مدد ونصرت سے حاصل ہوتی ہے

راوی:

وعن علي قال : كانت بيد رسول الله صلى الله عليه و سلم قوس عربية فرأى رجلا بيده قوس فارسية قال : " ما هذه ؟ ألقها وعليكم بهذه وأشباهها ورماح القنا فإنها يؤيد الله لكم بها في الدين ويمكن لكم في البلاد " . رواه ابن ماجه

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں ( کسی میدان میں یا ویسے ہی کسی موقع پر) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں عربی کمان تھی ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص ( صحابی ) کے ہاتھ میں فارسی ( ایرانی کمان دیکھی تو فرمایا کہ " یہ کیا ہے ؟ اس کو پھینک دو ، تمہیں ایسی ( یعنی عربی ) کمان رکھنی چاہئے ۔ اور اسی طرح ( یعنی اس وضع کی ) رکھنی چاہئے ۔ نیز تمہیں کامل نیزے رکھنے چاہئیں ، یقینا ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دین ( کو سر بلند رکھنے ) میں تمہاری مدد کرے گا اور ( دشمنوں کے ) شہروں میں تمہیں جما دے گا ۔ " ( ابن ماجہ )

تشریح :
گویا ان صحابی نے جب یہ دیکھا ہوگا کہ فارسی ( ایرانی ) کمان زیادہ مضبوط اور زیادہ سخت ہوتی ہے تو انہوں نے اس کمان کو عربی کمان پر ترجیح دی ، نیز پھر انہوں نے یہ گمان کیا ہوگا کہ ایسی کمان جنگ میں بہت کار آمد ہوتی ہے اور دشمنوں کے شہروں کو فتح کرنے کا مضبوط ذریعہ ہے ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر واضح کیا کہ تمہارا جو خیال ہے وہ صحیح نہیں ہے بلکہ آلات حرب خواہ کسی قسم کے ہوں اور دیکھنے میں کتنے ہی مضبوط وعمدہ ہوں حقیقت میں میدان جنگ کی کامیابی کا ان پر انحصار نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اس کی مرضی پر موقوف ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے اپنے دین کی سر بلندی کی جدوجہد میں مدد ونصرت دے کر کامیاب وکامران کرتا ہے ۔ حقیقی مدد ونصرت اسی کی طرف سے اور اسی کی قوت وقدرت کے ساتھ ہوتی ہے ، نہ تمہاری قوت وطاقت سے دین کی سر بلندی میں نصرت حاصل ہوتی ہے اور نہ محض تمہارے سازوسامان اور آلات حرب کی مضبوطی وعمدگی سے دشمنوں کے مقابلے پر مدد ملتی ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں