سفر میں ایک سے زائد لوگ ہونے کی صورت میں کسی ایک رفیق سفر کو امیر بنا لیا جائے
راوی:
وعن أبي سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " إذا كان ثلاثة في سفر فليؤمروا أحدهم " . رواه أبو داود
اور ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اگر ( مثلا سفر میں ) تین شخص ہوں تو ان میں سے کسی ایک کو امیر بنا لینا چاہئے ۔ " ( ابوداؤد )
تشریح :
تین شخص " سے مراد جماعت ہے کہ جس کا ادنیٰ درجہ تین ہے ، ویسے یہ حکم اس صورت کے متعلق بھی ہے جب کہ دو آدمی بھی ساتھ سفر کر رہے ہوں ، یہاں تین کے ذکر پر اکتفا اس لئے کیا گیا ہے کہ پہلے ایک حدیث میں بیان فرمایا جا چکا ہے کہ دو سوار شیطان ہوتے ہیں ۔ بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی سفر میں ایک سے زائد لوگ ہوں تو اس صورت میں ان میں سے ایک شخص کو اپنا امیر وسردار مقرر کر لیا جائے جو سب سے افضل ہو اور کسی کو امیر و سردار بنا لینے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ اگر دوران سفر کسی معاملہ میں آپس میں کوئی نزاعی صورت پیدا ہو جائے تو اس امیر و سردار کی طرف رجوع کر لیا جائے اور وہ جو فیصلہ کرے اس کو تسلیم کر کے اپنے نزاع کو ختم کر دیا جائے ۔ امیر وسردار کے لئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ اپنے تمام رفقاء سفر کے حق میں خیر خواہ ، مہربان اور غمگسار ہو اور اپنی سرداری کو اپنے لئے محض وجہ افتخار سمجھ کر کسی بڑائی میں مبتلا نہ ہو بلکہ حقیقی معنی میں اپنے آپ کو اس کا خادم سمجھے جیسا کہ فرمایا گیا ہے ۔ حدیث (سید القوم فی السفر خادمہم) یعنی کسی جماعت کا سردار اصل میں اپنی جماعت کا خدمت گزار ہوتا ہے ۔