مال غنیمت میں خیانت کرنے والا دوزخ میں ڈالا جائے گا
راوی:
وعن ابن عباس قال : حدثني عمر قال : لما كان يوم خيبر أقبل نفر من صحابة النبي صلى الله عليه و سلم فقالوا : فلان شهيد وفلان شهيد حتى مروا على رجل فقالوا : فلان شهيد فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " كلا إني رأيته في النار في بردة غلها أو عباءة " ثم قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يا ابن الخطاب اذهب فناد في الناس : أنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون ثلاثا " قال : فخرجت فناديت : ألا إنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون ثلاثا . رواه مسلم
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت عمر ابن خطاب نے ہم سے یہ بیان کیا کہ جب خیبر کا دن آیا ( یعنی جب غزوہ خیبر ختم ہو
گیا) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے چند لوگ آئے اور (آپس میں ) کہنے لگے کہ فلاں شخص شہید ہو گئے تھے ان کے نام لے لے کر ان کی شہادت کا ذکر کرتے تھے ) یہاں تک وہ لوگ ایک شخص (کی لاش ) پر سے گذرے اور کہا کہ (یہ ) فلاں شخص شہید ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر ) فرمایا کہ " ہرگز نہیں ، ( تم لوگ جس معنی میں اس کو شہید کہتے ہو وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ ) میں نے اس شخص کو مال غنیمت میں سے ایک چادر یا ایک دھاری دار کملی چرانے کے سبب دوزخ میں (جلتے ) دیکھا ہے ۔" پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مجھ کو مخاطب کر کے) فرمایا کہ " ابن خطاب جاؤ اور لوگوں کے درمیان تین مرتبہ یہ منادی کر دو کہ " جنّت میں (ابتداءً) صرف مؤمن (یعنی کامل مؤمن ) ہی داخل ہوں گے ۔ " حضرت عمر کہتے ہیں کہ چنانچہ میں نکلا اور تین مرتبہ یہ منادی کی کہ " خبردار ! جنّت میں صرف مؤمن ہی داخل ہوں گے ۔" ( مسلم )
تشریح :
" جنّت میں صرف مؤمن ہی داخل ہوں گے ۔' ' ابن ملک کہتے ہیں کہ شرعی اصطلاح اور عرف عام میں " مؤمن " اس شخص کو کہتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر ایمان لائے ۔ اس اعتبار سے جس شخص نے خیانت کا ارتکاب کیا اس نے گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و شریعت کی تصدیق سے انکار کیا بایں طور کہ اس تصدیق کے نتیجہ میں اس پر جو احکام نافذ ہوتے ہیں اس نے ان پر عمل نہیں کیا ۔ لیکن اس کا یہ مطلب بہر حال نہیں ہو سکتا کہ جس شخص نے خیانت کا ارتکاب کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے منافی عمل کیا وہ سرے سے مؤمن نہیں رہا ، لہٰذا اس اعلان کے ذریعہ کہ " جنّت میں صرف مؤمن ہی داخل ہوں گے ۔ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شخص کو بظاہر زمرہ مؤمنین سے خارج کرنا اصل میں سخت زجر و تنبیہ اور وعید کے طور پر تھا یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس ارشاد میں " مؤ من " سے مراد " متقی وپرہیزگار مؤمن " ہے اور " داخل ہونے " سے مراد بلا عذاب داخل ہونا ہے ، اس طرح اس ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ جو مؤمن ، تقوی، و پرہیز گاری کی راہ پر گامزن ہوں گے وہ جنّت میں بغیر عذاب کے داخل کئے جائیں گے ، لیکن جو مؤمن متقی و پرہیز گار نہیں ہوں گے اور گناہ کا ارتکاب کریں گے انہیں پہلے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا تاکہ وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت لیں اور پھر بعد میں انہیں بھی جنّت میں داخل کر دیا جائے گا
چونکہ یہ ارشاد " میں نے اس کو دوزخ میں دیکھا ہے " بظاہر ان نصوص کے خلاف ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کسی کا حقیقتاً دوزخ میں ڈالا جانا ، حشر کے بعد ہی واقع ہوگا ۔ لہٰذا اس ارشاد گرامی کو " تمثیل " پر محمول کیا جائے ، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اسلوب بیان کے ذریعے درحقیقت اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ شخص دوزخ میں ڈالا جائے گا جیسا کہ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال کے انتقال سے پہلے ہی ان کے جنّت میں داخل ہونے کو تمثیل کے طور بیان فرمایا تھا ، میرے نزدیک یہ احتمال بھی ہے کہ یہ ارشاد مجازی اسلوب بیان کا مظہر ہو ، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ میں اس شخص کو ایک ایسے گناہ کا مرتکب جانتا ہوں جو دوزخ کے عذاب کو واجب کرنے والا ہے ، جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ (اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِيْ نَعِيْمٍ) 82۔ الانفطار : 13) (نیک لوگ جنّت میں ہیں ) ظاہر ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نیک لوگ ابھی سے جنّت میں پہنچ گئے ہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ نیک لوگ ان اوصاف حمیدہ کے حامل ہوتے ہیں جو ان کو جنّت میں لے جائیں گے ۔