کتوں کو مار ڈالنے کا حکم
راوی:
وعن جابر قال : أمرنا رسول الله صلى الله عليه و سلم بقتل الكلاب حتى إن المرأة تقدم من البادية بكلبها فتقتله ثم نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن قتلها وقال : " عليكم بالأسود البهيم ذي النقطتين فإنه شيطان " . رواه مسلم
وعن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه و سلم أمر بقتل الكلاب إلا كلب صيد أو كلب غنم أو ماشية
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ( مدینہ کے ) کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دے دیا تھا چنانچہ ( ہم مدینہ اور اطراف مدینہ کے کتوں کو مار ڈالتے تھے ) یہاں تک کہ جو عورت جنگل سے آتی اور اس کا کتا اس کے ساتھ ہوتا تو ہم اس کو بھی ختم کر دیتے تھے ، پھر بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام کتوں کو مار ڈالنے سے منع فرما دیا اور یہ حکم دیا کے خالص سیاہ کتے کو جو دو نقطوں والا ہو مار ڈالنا تمہارے لئے ضروری ہے کیونکہ وہ شیطان ہے ۔ " ( مسلم )
تشریح
علماء نے لکھا ہے کہ کتوں کو مار ڈالنے کا حکم صرف مدینہ منورہ کے ساتھ مخصوص تھا کیونکہ وہ شہر مقدس محض اسی اعتبار سے تقدیس کا حامل نہیں تھا کہ اس میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اقامت پذیر تھے بلکہ اس اعتبار سے بھی اس کو پاکیزگی کی عظمت حاصل تھی کہ وہ وحی کے نازل ہونے اور ملائکہ کی آمدورفت کی جگہ تھا ، لہذا یہ بات بالکل موزوں اور مناسب تھی کہ اس کی سر زمین کو کتوں کے وجود سے پاک رکھا جاتا ۔
عورتوں کی تخصیص یا تو اس وجہ سے ہے کہ جو عورتیں جنگل میں بود وباش رکھتی تھیں ان کو ( مویشیوں وغیرہ کی حفاظت کے لئے ) کتوں کی زیادہ ضرورت ہوتی تھی ، اور جب وہ شہر میں آتیں تو اس وقت بھی ان کا کتا ان کے ہمراہ ہوتا تھا ۔
یا یہ کہا جائے کہ یہاں عورت کی قید محض اتفاقی ہے اور مراد یہ ہے کہ ان کتوں کو بھی زندہ نہیں چھوڑا جاتا تھا جو جنگل سے شہر آ جاتے تھے خواہ وہ کسی عورت کے ساتھ آتے یا کسی مرد وغیرہ کے ساتھ ۔
" جو دو نقطوں والا ہو ' یعنی وہ کالا بھجنگ کتا جس کی دونوں آنکھوں پر دو سفید نقطے ( ٹپکے ) ہوتے ہیں ۔ اس قسم کا کتا چونکہ انتہائی شریر اور لوگوں کے لئے سخت تکلیف اور ایذاء پہنچانے والا ہوتا ہے اس لئے اس کو " شیطان " فرمایا گیا ہے ۔
اس کو " شیطان " کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسا کتا نہ نگہبانی کے کام کا ہوتا ہے اور نہ شکار پکڑنے کے مصرف کا ، چنانچہ اسی سبب سے حضرات امام احمد و اسحق نے یہ کہا ہے کہ سیاہ کتے کا پکڑا ہوا شکار حلال نہیں کیونکہ وہ شیطان ہے ۔
حضرت امام نووی فرماتے ہں کہ عقور یعنی کٹ کھنے کتے کو مار ڈالنے پر تو علمار کا اتفاق ہے اگرچہ وہ سیاہ رنگ کا نہ ہو لیکن اس کتے کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں جو نقصان و ضرر پہنچانے والا نہ ہو ۔
امام حرمین کہتے ہیں کہ کتوں کو مار ڈالنے کے حکم کی اصل صورت حال یہ ہے کہ پہلے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا تھا ، بعد میں اس حکم کی عمومیت منسوخ کر کے اس کے صرف یک رنگ سیاہ کتے تک محدود کر دیا گیا اور پھر آخری طور پر ان تمام کتوں کو مار ڈالنے کی ممانعت نافذ ہوئی جو نقصان و ضرر پہنچانے والے نہ ہوں ، یہاں تک کہ یک رنگ سیاہ کتے کو بھی اس حکم میں شامل کر دیا گیا اگر اس سے نقصان و ضرر پہنچنے کا خطرہ نہ ہو تو اس کو بھی ختم نہ کیا جائے ۔
" اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ( سارے کتوں کے یا مدینہ کے ) کتوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا ، لیکن شکاری کتوں اور بکریوں کی حفاظت کرنے والے کتوں اور مویشیوں کی حفاظت کرنے والے کتوں کو مستثنی رکھا ۔ " ( بخاری ومسلم )
تشریح
او ماشیۃ " ( اور مویشیوں کی حفاظت کرنے والے کتے ) " یہ جملہ تعمیم بعد تخصیص کے طور پر ہے ۔ یعنی استثناء کے سلسلے میں پہلے تو خاص طور پر بکریوں کو حفاظت کرنے والے کتوں کا ذکر کیا پھر اور بعد میں عمومی طور پر تمام جانوروں کی حفاظت کرنے والے کتوں کا ذکر کر دیا ، لہٰذا اس صورت میں حرف " او " تنویع کے لئے ہو گا جیسا کہ ماقبل کی عبارت میں ہے ۔
یا یہ کہ " او ماشیۃ " میں حرف " او " راوی کے شک کو ظاہر کرنے کے لئے ہے یعنی اس کے ذریعہ حدیث کے راوی نے بتانا چاہا ہے کہ مجھے صحیح یاد نہیں ہے کہ اس موقع پر " الا کلب صید او کلب " کے بعد " غنم " فرمایا گیا تھا یا " ما شیۃ ۔