سارے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دینے کی علت
راوی:
عن عبد الله بن مغفل عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " لولا أن الكلاب أمة من الأمم لأمرت بقتلها كلها فاقتلوا منها كل أسود بهيم " . رواه أبو داود والدارمي وزاد الترمذي والنسائي : " وما من أهل بيت يرتبطون كلبا إلا نقص من عملهم كل يوم قيراط إلا كلب صيد أو كلب حرث أو كلب غنم "
" حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے ( بھی ) گروہوں میں سے ایک گروہ ہیں تو میں یقینا یہ حکم دے دیتا کہ ان سب کو مار ڈالا جائے پس ان میں جو ( بھی ) کتا خالص سیاہ رنگ کا ہو اس کا مار ڈالوں ( ابوداؤد ، دارمی ) اور ترمذی و نسائی نے یہ عبارت مزید نقل کی ہے کہ " اور جو گھر والے " بلا ضرورت " کتا پالتے ہیں ان کے عمل ( کے ثواب میں سے روازانہ ایک قیراط کے بقدر کمی کر دی جاتی ہے ، ہاں شکاری کتا اور کھیت کی حفاظت کرنے والا اور ریوڑ کی چوکسی کرنے والا کتا اس سے مستثنٰی ہے ۔ "
تشریح
" کتے ( بھی ) گروہوں میں سے ایک گروہ ہیں الخ " اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ فرمایا آیت
(وَمَا مِنْ دَا بَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰ ى ِرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّا اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ) 6۔ الانعام : 38)۔
" اور جتنی قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنی قسم کے پرند جانور ہیں کہ اپنے دونوں بازؤوں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ تمہاری طرح گروہ نہ ہوں ۔ "
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح انسان ایک امت اور ایک جنس ہیں اسی طرح جانور بھی ایک امت اور ایک جنس ہیں ، خواہ وہ زمین پر چلنے والے ہوں یا فضا میں اڑنے والے ہوں ، جس طرح انسان اپنے مختلف نام اور اپنے مختلف انواع کے ذریعہ ایک دوسرے سے پہچانے جاتے ہیں ، اسی طرح جانوروں کے بھی مختلف نام اور مختلف نوع ہیں جن کے ذریعہ ایک دوسرے کے درمیان فرق امتیاز کیا جاتا ہے ۔ اور جس طرح انسان اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہیں ۔ کہ ہر شخص کو اپنے اپنے مقدر کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق ملتا ہے ، اسی طرح جانوروں کو بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے رزق ملتا ہے ، نیز یہ کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی خاص مصلحت و حکمت کی بناء پر پیدا کیا ہے اسی طرح جانوروں کو بھی مصلحت و حکمت ہی کے مطابق پیدا کیا ہے ، اس اعتبار سے جس طرح انسان کی جان کی اہمیت ہے ، اسی طرح جانوروں کی جان کی بھی اہمیت ہے کہ ان کو بلا ضرورت اور بلا مقصد مار ڈالنا تخلیق الٰہی کی مصلحت و حکمت کے منافی ہے ۔
لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشار فرمایا کہ اس آیت کریمہ کے بموجب یہ تو ممکن نہیں ہے کہ سارے کتوں کو مار ڈالا جائے کیونکہ مخلوق الٰہی میں جتنے گروہ اور جتنی جماعتیں ہیں ان میں ایک گروہ اور ایک جماعت کتے بہی ہیں اور کسی جماعت کے گروہ کے فنا کر دینا اللہ تعالیٰ کی اس حکمت و مصلحت کے بالکل منافی ہے جو ہر جاندار کی تخلیق میں کار فرما ہے ، البتہ ان کتوں میں جو کتے خالص سیاہ رنگ کے ہوں ان کو مار ڈالنا چاہئے کیونکہ اس قسم کے کتے نہایت شریر اور سخت خطرناک ہوتے ہیں جن سے لوگوں کو سوائے تکلیف و ایذاء کے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ، اور باقی دوسری قسم کے کتے چونکہ کھیت کھلیان اور مویشیوں کی چوکسی کرنے وغیرہ کے کام میں آتے ہیں اور وہ ایک طرح سے انسان کی خدمت کرتے ہیں اس لئے آیت کریمہ کی تعلیم کے علاوہ یوں بھی مفاد عامہ کے پیش نظر ان کو زندہ رکھنا ہی زیادہ بہتر اور فائدہ مند ہے ۔
حدیث میں لفظ " فاقتلوا " ترکیب نحوی کے اعتبار سے جواب ہے شرط محذوف کا ، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ جب مذکورہ سبب (آیت کریمہ کے بموجب ) تمام کتوں کو مار ڈالنے کا کوئی راستہ نظر آتا تو کم سے کم ان کتوں کو مار ڈالو جو خالص سیاہ رنگ کے ہوں ۔