مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ شکار کا بیان ۔ حدیث 60

چیونٹی کو مارنے کا مسئلہ

راوی:

وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " قرصت نملة نبيا من الأنبياء فأمر بقربة النمل فأحرقت فأوحى الله تعالى إليه : أن قرصتك نملة أحرقت أمة من الأمم تسبح ؟ "

" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ( اللہ کے جو ) ابنیاء ( پہلے گزر چکے ہیں ان میں سے کسی نبی ( کا واقعہ ہے کہ ایک دن ان کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا ، انہوں نے چیونٹیوں کے بل کے بارے میں حکم دیا کہ اس کو جلا دیا جائے ، چنانچہ بل کو جلا دیا گیا ۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ وحی نازل کی کہ تمہیں ایک چیونٹی نے کاٹا تھا اور تم نے جماعتوں میں سے ایک جماعت کو جلا ڈالا جو تسبیح ( یعنی اللہ کی پاکی بیان کرنے ) میں مشغول رہتی تھی ۔ " ( بخاری ومسلم )

تشریح
" چنانچہ بل کو جلا دیا گیا " کے بارے میں بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی نے اس درخت کو جلانے کا حکم دیا تھا جس میں چیونٹیوں کا بل تھا ، چنانچہ اس درخت کو جلا ڈالا گیا ۔ اس واقعہ کا پس منظر یہ روایت ہے کہ ایک مرتبہ ان نبی علیہ السلام نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا تھا کہ ( پروردگار ! تو کسی آبادی کو اس کے باشندوں کے گناہوں کے سبب عذاب میں مبتلا کرتا ہے اور وہ پوری آبادی تہس نہس ہو جاتی ہے ، درآنحالیکہ اس آبادی میں مطیع و فرمانبردار لوگوں کی بھی کچھ تعداد ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا کہ ان کی عبرت کے لئے کوئی مثال پیش ہونی چأہئے ۔ چنانچہ ان نبی علیہ السلام پر سخت ترین گرمی مسلط کر دی گئی ، یہاں تک کہ وہ اس گرمی سے نجات پانے کے لئے ایک سایہ دار درخت کے نیچے چلے گئے ، وہاں ان پر نیند کا غلبہ ہو گیا اور وہ سو رہے تھے تو ایک چیونٹی نے ان کو کاٹ لیا ، انہوں نے حکم دیا کہ ساری چیونٹیوں کو جلا دیا جائے ، کیونکہ ان کے لئے یہ آسان نہیں تھا کہ وہ اس خاص چیونٹی کو پہچان کر جلواتے جس نے ان کو کاٹا تھا یا یہ کہ ان کے نزدیک ساری چیونٹیاں موذی تھیں اور موذی کی پوری جنس کو مار ڈالنا جائز ہے ۔
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ " قریۃ نمل " سے چیونٹیوں کا بل مراد ہے ۔
" اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی نازل کی الخ " یہ گویا ان نبی پر حق تعالیٰ کی طرف سے عتاب ہے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ یہ اس بات پر محمول ہے کہ نبی علیہ السلام کی شریعت میں چیونٹیوں کو مار ڈالنا یا جلا ڈالنا جائز تھا ، اور عتاب اس سبب سے ہوا کہ انہوں نے ایک چیونٹی سے زیادہ کو جلایا ۔ لیکن واضح رہے کہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں کسی بھی حیوان و جانور کو جلانا جائز نہیں ہے اگرچہ جوئیں اور کھٹمل وغیرہ ہی کیوں نہ ہوں ، نیز موذی جانوروں کے علاوہ دوسرے جانوروں کو مار ڈالنا بھی جائز نہیں ہے ۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے منقول ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی جاندار کو مار ڈالنے سے منع فرمایا ہے الاّ یہ کہ وہ ایذاء پہنچانے والا ہو ۔
مطالب المؤمنین میں محمد بن مسلم سے چیونٹی کا مار ڈالنے کے بارے میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ اگر چیونٹی نے تمہیں ایذاء پہنچائی ہے تو اس کو مار ڈالو ، اور اگر اس نے کوئی ایذاء نہیں پہنچائی ہے تو مت مارو ، چنانچہ فقہاء نے کہا ہے کہ ہم اسی قول پر فتویٰ دیتے ہیں ۔
اسی طرح چیونٹی کو پانی میں ڈالنا بھی مکروہ ہے ۔ نیز کسی ایک چیونٹی کو ( جس نے ایذاء پہنچائی ہو ) مار ڈالنے کے لئے ساری چیونٹیوں کے بل کو نہ جلایا جائے اور نہ تباہ کیا جائے ۔

یہ حدیث شیئر کریں