معاہدے کے مال کا حکم
راوی:
وعنه قال : غزوت مع النبي صلى الله عليه و سلم يوم خيبر فأتت اليهود فشكوا أن الناس قد أسرعوا إلى خضائرهم فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ألا لا يحل أموال المعاهدين إلا بحقها " . رواه أبو داود
" اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ خیبر کے دن جہاد میں شریک تھا ( ایک موقع پر ) یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور یہ شکایت کی کہ لوگوں نے ان کی کھجوروں کی طرف جلد روی اختیار کی ہے ( یعنی مسلمانوں نے ہمارے کھجور کے درختوں پر سے پھل توڑ لئے ہیں جب کہ ہم معاہد ہیں) چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " خبردار ! ان لوگوں کا مال حلال نہیں ہے جس سے عہد و پیمان ہو چکا ہے ۔ علاوہ اس حق کے جو اس مال سے متعلق ۔ " ( ابوداؤد )
تشریح
" معاہد " اس شخص کو کہتے ہیں کہ جس سے عہد و پیمان ہوا ہو ، چنانچہ اگر وہ معاہد ذمی ہے تو وہ حق جو اس کے مال سے متعلق ہے جزیہ ہے اور اگر وہ معاہد مستامن ہے اور اس کے پاس مال تجارت ہے ۔ تو اس کے مال سے جو حق متعلق ہو گا وہ اس پر لاگو ہونے والا عشر ہے ۔