ٹڈی کا حکم
راوی:
وعن سلمان قال : سئل النبي صلى الله عليه و سلم عن الجراد فقال : " أكثر جنود الله لا آكله ولا أحرمه " . رواه أبو داود وقال محيي السنة : ضعيف
" اور حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹڈی کے ( کھانے اور اس کی حقیقت کے ) بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " ٹڈیاں اللہ تعالیٰ کا ( پرندوں میں ) سب سے بڑا لشکر ہیں ، نہ تو میں اس کو کھاتا ہوں ( کیونکہ طبعا مجھے کراہت محسوس ہوتی ہے ) اور نہ ( دوسروں پر ) شرعا اس کو حرام قرار دیتا ہوں ( کیوں کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حلال کیا گیا ہے جیسا کہ پہلے یہ حدیث گزری ہے کہ احلت لنا میتتان ابوداؤد ٠! اور محی السنۃ نے کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ۔ "
تشریح
ٹڈیاں اللہ تعالیٰ کا لشکر اس اعتبار سے ہیں کہ جب کسی گروہ اور کسی قوم پر غضب آتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف ٹڈیوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیجتا ہے تاکہ وہ اس قوم کی کھیتوں اور ان کے درختوں کو کھا جائیں ۔ جس سے ان میں قحط پھیل جائے ۔ چنانچہ پچھلے زمانوں میں ایسا بارہا ہوا ہے کہ جب کسی جگہ کے کھیتوں اور باغات کو غضب الٰہی کی بنا پر تڈیوں نے نست و نابود کر دیا اور اس کی وجہ سے وہاں قحط پھیل گیا تو ایک انسان دوسرے انسان کو کھانے لگا اس طرح وہاں کی پوری کی پوری آبادی تباہ و برباد ہو گئی ۔
جہاں تک ٹڈی کا مسئلہ ہے تو اس کا کھانا اکثر احادیث کے بموجب حلال ہے ، چنانچہ چاروں أئمہ کا یہ مسلک ہے کہ ٹڈی کو کھانا حلال ہے ، خواہ وہ خود سے مر گئی ہو یا اس کو ذبح کیا گیا ہو ، یا شکار کے ذریعہ مری ہو ، اور شکار بھی خواہ کسی مسلمان نے کیا ہو ، یا مجوسی نے اور خواہ اس میں سے کچھ کاٹا جائے یا نہیں ۔