ایلاء اور عورتوں سے جدا ہونے اور انہیں اختیار دینے اور اللہ کے قول ان تظاہرا علیہ کے بیان میں
راوی: زہیر بن حرب , عمر بن یونس حنفی , عکرمہ بن عمار , سماک ابی زمیل , ابن عباس , عمر بن خطاب
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ حَدَّثَنَا عِکْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ عَنْ سِمَاکٍ أَبِي زُمَيْلٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ لَمَّا اعْتَزَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَائَهُ قَالَ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا النَّاسُ يَنْکُتُونَ بِالْحَصَی وَيَقُولُونَ طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَائَهُ وَذَلِکَ قَبْلَ أَنْ يُؤْمَرْنَ بِالْحِجَابِ فَقَالَ عُمَرُ فَقُلْتُ لَأَعْلَمَنَّ ذَلِکَ الْيَوْمَ قَالَ فَدَخَلْتُ عَلَی عَائِشَةَ فَقُلْتُ يَا بِنْتَ أَبِي بَکْرٍ أَقَدْ بَلَغَ مِنْ شَأْنِکِ أَنْ تُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ مَا لِي وَمَا لَکَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ عَلَيْکَ بِعَيْبَتِکَ قَالَ فَدَخَلْتُ عَلَی حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ فَقُلْتُ لَهَا يَا حَفْصَةُ أَقَدْ بَلَغَ مِنْ شَأْنِکِ أَنْ تُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُحِبُّکِ وَلَوْلَا أَنَا لَطَلَّقَکِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَکَتْ أَشَدَّ الْبُکَائِ فَقُلْتُ لَهَا أَيْنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ هُوَ فِي خِزَانَتِهِ فِي الْمَشْرُبَةِ فَدَخَلْتُ فَإِذَا أَنَا بِرَبَاحٍ غُلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدًا عَلَی أُسْکُفَّةِ الْمَشْرُبَةِ مُدَلٍّ رِجْلَيْهِ عَلَی نَقِيرٍ مِنْ خَشَبٍ وَهُوَ جِذْعٌ يَرْقَی عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَنْحَدِرُ فَنَادَيْتُ يَا رَبَاحُ اسْتَأْذِنْ لِي عِنْدَکَ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ رَبَاحٌ إِلَی الْغُرْفَةِ ثُمَّ نَظَرَ إِلَيَّ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا ثُمَّ قُلْتُ يَا رَبَاحُ اسْتَأْذِنْ لِي عِنْدَکَ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ رَبَاحٌ إِلَی الْغُرْفَةِ ثُمَّ نَظَرَ إِلَيَّ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا ثُمَّ رَفَعْتُ صَوْتِي فَقُلْتُ يَا رَبَاحُ اسْتَأْذِنْ لِي عِنْدَکَ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنِّي أَظُنُّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَنَّ أَنِّي جِئْتُ مِنْ أَجْلِ حَفْصَةَ وَاللَّهِ لَئِنْ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضَرْبِ عُنُقِهَا لَأَضْرِبَنَّ عُنُقَهَا وَرَفَعْتُ صَوْتِي فَأَوْمَأَ إِلَيَّ أَنْ ارْقَهْ فَدَخَلْتُ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَی حَصِيرٍ فَجَلَسْتُ فَأَدْنَی عَلَيْهِ إِزَارَهُ وَلَيْسَ عَلَيْهِ غَيْرُهُ وَإِذَا الْحَصِيرُ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ فَنَظَرْتُ بِبَصَرِي فِي خِزَانَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا أَنَا بِقَبْضَةٍ مِنْ شَعِيرٍ نَحْوِ الصَّاعِ وَمِثْلِهَا قَرَظًا فِي نَاحِيَةِ الْغُرْفَةِ وَإِذَا أَفِيقٌ مُعَلَّقٌ قَالَ فَابْتَدَرَتْ عَيْنَايَ قَالَ مَا يُبْکِيکَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ وَمَا لِي لَا أَبْکِي وَهَذَا الْحَصِيرُ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِکَ وَهَذِهِ خِزَانَتُکَ لَا أَرَی فِيهَا إِلَّا مَا أَرَی وَذَاکَ قَيْصَرُ وَکِسْرَی فِي الثِّمَارِ وَالْأَنْهَارِ وَأَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَفْوَتُهُ وَهَذِهِ خِزَانَتُکَ فَقَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ أَلَا تَرْضَی أَنْ تَکُونَ لَنَا الْآخِرَةُ وَلَهُمْ الدُّنْيَا قُلْتُ بَلَی قَالَ وَدَخَلْتُ عَلَيْهِ حِينَ دَخَلْتُ وَأَنَا أَرَی فِي وَجْهِهِ الْغَضَبَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا يَشُقُّ عَلَيْکَ مِنْ شَأْنِ النِّسَائِ فَإِنْ کُنْتَ طَلَّقْتَهُنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مَعَکَ وَمَلَائِکَتَهُ وَجِبْرِيلَ وَمِيکَائِيلَ وَأَنَا وَأَبُو بَکْرٍ وَالْمُؤْمِنُونَ مَعَکَ وَقَلَّمَا تَکَلَّمْتُ وَأَحْمَدُ اللَّهَ بِکَلَامٍ إِلَّا رَجَوْتُ أَنْ يَکُونَ اللَّهُ يُصَدِّقُ قَوْلِي الَّذِي أَقُولُ وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ آيَةُ التَّخْيِيرِ عَسَی رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْکُنَّ وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِکَةُ بَعْدَ ذَلِکَ ظَهِيرٌ وَکَانَتْ عَائِشَةُ بِنْتُ أَبِي بَکْرٍ وَحَفْصَةُ تَظَاهَرَانِ عَلَی سَائِرِ نِسَائِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَطَلَّقْتَهُنَّ قَالَ لَا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ وَالْمُسْلِمُونَ يَنْکُتُونَ بِالْحَصَی يَقُولُونَ طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَائَهُ أَفَأَنْزِلُ فَأُخْبِرَهُمْ أَنَّکَ لَمْ تُطَلِّقْهُنَّ قَالَ نَعَمْ إِنْ شِئْتَ فَلَمْ أَزَلْ أُحَدِّثُهُ حَتَّی تَحَسَّرَ الْغَضَبُ عَنْ وَجْهِهِ وَحَتَّی کَشَرَ فَضَحِکَ وَکَانَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ ثَغْرًا ثُمَّ نَزَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَزَلْتُ فَنَزَلْتُ أَتَشَبَّثُ بِالْجِذْعِ وَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَأَنَّمَا يَمْشِي عَلَی الْأَرْضِ مَا يَمَسُّهُ بِيَدِهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا کُنْتَ فِي الْغُرْفَةِ تِسْعَةً وَعِشْرِينَ قَالَ إِنَّ الشَّهْرَ يَکُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ فَقُمْتُ عَلَی بَابِ الْمَسْجِدِ فَنَادَيْتُ بِأَعْلَی صَوْتِي لَمْ يُطَلِّقْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَائَهُ وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَإِذَا جَائَهُمْ أَمْرٌ مِنْ الْأَمْنِ أَوْ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ فَکُنْتُ أَنَا اسْتَنْبَطْتُ ذَلِکَ الْأَمْرَ وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ آيَةَ التَّخْيِيرِ
زہیر بن حرب، عمر بن یونس حنفی، عکرمہ بن عمار، سماک ابی زمیل، ابن عباس ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنی ازواج رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے علیحدہ ہو گئے اس وقت میں مسجد میں داخل ہوا تو لوگوں کو کنکریاں الٹ پلٹ کرتے ہوئے دیکھا وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے یہ انہیں پردے کا حکم دیئے جانے سے پہلے کا واقعہ ہے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے کہا میں آج کے حالات ضرور معلوم کروں گا پس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گیا اور کہا اے ابوبکر کی بیٹی تمہارا یہ حال کیا ہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف دینے لگی ہو انہوں نے کہا ابن خطاب مجھے تجھ سے اور تجھ کو مجھ سے کیا کام تم پر اپنی گٹھڑی کا خیال رکھنا لازم ہے حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا پھر میں حفصہ بنت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گیا اور میں نے اسے کہا اے حفصہ! تمہارا یہ حال کیا ہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذاء دینے لگی ہو اور اللہ کی قسم تو جانتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھ سے محبت نہیں کرتے اور اگر میں نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھے طلاق دے چکے ہوتے پس وہ روئیں اور خوب روئیں تو میں نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہاں ہیں تو اس نے کہا وہ اپنے گودام اور بالاخانے (اوپر والے کمرے) میں ہیں، میں حاضر ہوا تو دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام رباح اس بالاخانے کے دروازے پر اپنے پاؤں ایک کھدی ہوئی لکڑی پر لٹکائے جو کہ کھجور دکھائی دے رہی تھے بیٹھا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس لکڑی پر سے چڑھتے اور اترتے تھے میں نے آواز دی اے رباح میرے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہونے کے لئے اجازت لو رباح نے کمرے کی طرف دیکھا پھر میری طرف دیکھا لیکن کوئی بات نہیں کی پھر میں نے کہا حاضر ہونے کی اجازت لو تو رباح نے بالاخانے کی طرف دیکھا پھر میری طرف دیکھا لیکن کوئی بات نہیں کی پھر میں نے بآواز بلند کہا اے رباح! میرے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہونے کی اجازت لو پس میں نے اندازہ لگایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گمان کیا کہ میں حفصہ کی وجہ سے حاضر ہوا ہوں حالانکہ اللہ کی قسم اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اس کی گردن مار دینے کا حکم دیتے تو میں اس کی گردن مار دیتا اور میں نے اپنی آواز کو بلند کیا تو اس نے اشارہ کیا کہ میں چڑھ آؤں پس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے میں بیٹھ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر اپنے اوپر لے لی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اس کے علاوہ کوئی کپڑا نہ تھا اور چٹائی کے نشانات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو (کمر) پر لگے ہوئے تھے پس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خزانہ کو بغور دیکھا تو اس میں چند مٹھی جو تھے جو کہ ایک صاع کی مقدار میں ہوں گے اور اس کے برابر سلم کے پتے ایک کونہ میں پڑے ہوئے تھے اور ایک کچا چمڑا جس کی دباغت اچھی طرح نہ ہوئی تھی لٹکا ہوا تھا پس میری آنکھیں بھر آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابن خطاب! تجھے کس چیز نے رلادیا؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! مجھے کیا ہوگیا کہ میں نہ روؤں حالانکہ یہ چٹائی کے نشانات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو پر ہیں اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خزانہ ہے میں نہیں دیکھتا اس میں کچھ مگر وہی جو سامنے ہے اور وہ قیصر وکسری ہیں جو پھلوں اور نہروں میں زندگی گزارتے ہیں حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول اور اس کے برگزید بندے ہیں اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خزانہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابن خطاب کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ ہمارے لئے آخرت ہے اور ان کے لئے دنیا؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جب حاضر ہوا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور پر غصہ دیکھا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عورتوں کی طرف سے کیا مشکل پیش آئی اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں طلاق دے چکے ہیں تو اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہے نصرت ومدد اس کے فرشتے جبرائیل اور میکائیل ہیں اور ابوبکر اور مومنین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہیں اور اکثرجب میں گفتگو کرتا اور اللہ کی تعریف کرتا کسی گفتگو کے ساتھ تو اس امید کے ساتھ کہ اللہ اس کی تصدیق کرے گا جو بات میں کرتا ہوں اور آیت تخیر نازل ہوئی (وَاِنْ تَظٰهَرَا عَلَيْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَجِبْرِيْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمَلٰ ى ِكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِيْرٌ Ć عَسٰى رَبُّه اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَه اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ) 66۔ التحریم : 3۔4) قریب ہے کہ نبی اگر تم کو طلاق دے دیں تو اس کا پروردگار اس کو تم سے بہتر بیویاں عطا کر دے اور تم دونوں نے ان پر زور دیا تو اللہ ہی اس کا مددگار اور جبرائیل اور نیک مومنین اور فرشتے اس کے بعد پشت پناہی کرنے والے ہیں اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت ابوبکر اور حفصہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام بیویوں پر زور دیا تھا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں طلاق دے دی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں مسجد میں داخل ہوا اور لوگ کنکریاں الٹ پلٹ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے کیا میں اتر کر انہیں خبر نہ دوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں طلاق نہیں دی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں اگر تو چاہے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو میں مشغول رہا یہاں تک کہ غصہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ سے دور ہوگیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دانت مبارک کھولے اور مسکرائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دانتوں کی ہنسی سب لوگوں سے خوبصورت تھی پھر اللہ کے نبی اترے اور میں بھی اترا اس کھجور کی لکڑی کو پکڑتا ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح اترے گویا زمین پر چل رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لکڑی کو ہاتھ تک نہ لگایا میں نے کہا اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتیس دن سے اس کمرہ میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے مسجد کے دروازہ پر کھڑے ہو کر میں نے پکارا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ازواج کو طلاق نہیں دی اور یہ آیت نازل ہوئی (وَاِذَا جَا ءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِه وَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰ ى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْ بِطُوْنَه مِنْھُمْ) 4۔ النساء : 83) جب ان کے پاس کوئی خبر چین یا خوف کی آتی ہے تو اسے مشہور کر دتیے ہیں اور اگر وہ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اپنے اہل امر کی طرف لوٹاتے تو لوگ جان لیتے ان لوگوں کو جو ان میں سے استنباط کرنے والے ہیں تو میں نے اس سے اس حقیقت کو چن لیا پھر اللہ عزوجل نے آیت تخیر نازل کی۔
'Umar b. al-Khattab (Allah be pleased with him) reported: When Allah's Apostle (may peace be upon him) kept himself away from his wives, I entered the mosque, and found people striking the ground with pebbles and saying: Allah's Messenger (may peace be upon him) has divorced his wives, and that was before they were commanded to observe seclusion 'Umar said to himself: I must find this (actual position) today. So I went to 'A'isha (Allah be pleased with her) and said (to her): Daughter of Abu Bakr, have you gone to the extent of giving trouble to Allah's Messenger (may peace be upon him)? Thereupon she said: Son of Khattab, you have nothing to do with me, and I have nothing to do with you. You should look to your own receptacle. He ('Umar) said: I visited Hafsa daughter of 'Umar, and said to her: Hafsa, the (news) has reached me that you cause Allah's Messenger (may peace be upon him) trouble. You know that Allah's Messenger (may peace be upon him) does not love you, and had I not been (your father) he would have divorced you. (On hearing this) she wept bitterly. I said to her: Where is Allah's Messenger (may peace be upon him)? She said: He is in the attic room. I went in and found Rabah, the servant of Allah's Messenger (may peace be upon him), sitting on the thresholds of the window dangling his feet on the hollow wood of the date-palm with the help of which Allah's Messenger (may peace be upon him) climbed (to the apartment) and came down. I cried: 0 Rabah, seek permission for me from Allah's Messenger (way peace be upon him). Rabah cast a glance at the apartment and then looked toward me but said nothing. I again said: Rabah, seek permission for me from Allah's Messenger (may peace be upon him). Rabah looked towards the apartment and then cast a glance at me, but said nothing. I then raised my voice and said: 0 Rabah, seek permission for me from Allah's Messenger (may peace be upon him). I think that Allah's Messenger (may peace be upon him) is under the impression that I have come for the sake of Hafsa. By Allah, if Allah's Messenger (may peace be upon him) would command me to strike her neck, I would certainly strike her neck. I raised my voice and he pointed me to climb up (and get into his apartment). I visited Allah's Messenger (may peace be upon him), and he was lying on a mat. I sat down and he drew up his lower garment over him and he had nothing (else) over him, and that the mat had left its marks on his sides. I looked with my eyes in the store room of Allah's Messenger (may peace be upon him). I found only a handful of barley equal to one sa' and an equal quantity of the leaves of Mimosa Flava placed in the nook of the cell, and a semi-tanned leather bag hanging (in one side), and I was moved to tears (on seeing this extremely austere living of the Holy Prophet), and he said: Ibn Khattab, what makes you weep?
I said: Apostle of Allah, why should I not shed tears? This mat has left its marks on your sides and I do not see in your store room (except these few things) that I have seen; Ceasar and Closroes are leading their lives in plenty whereas you are Allah's Messenger, His chosen one, and that is your store! He said: Ibn Khattab, aren't you satisfied that for us (there should be the prosperity) of the Hereafter, and for them (there should be the prosperity of) this world? I said: Yes. And as I had entered I had seen the signs of anger on his face, and I therefore, said: Messenger of Allah, what trouble do you feel from your wives, and if you have divorced them, verily Allah is with you, His angels, Gabriel, Mika'il, I and Abu Bakr and the believers are with you. And seldom I talked and (which I uttered on that day) I hoped that Allah would testify to my words that I uttered. And so the verse of option (Ayat al-Takhyir) was revealed. Maybe his Lord, if he divorce you, will give him in your place wives better than you…" (Ixv. 5). And if you back up one another against him, then surely Allah is his Patron, and Gabriel and the righteous believers, and the angels after that are the aidera (lvi. 4). And it was 'A'isha, daughter of Abu Bakr, and Hafsa who had prevailed upon all the wives of Allah's Prophet (may peace be upon him) for (pressing them for mote money). I said: Messenger of Allah, have you divorced them? He said: No. I said: Messenger of Allah, I entered the mosque and found the Muslims playing with pebbles (absorbed in thought) and saying: Allah's Messenger has divorced his wives. Should I get down and inform them that you have not divorced them? He said: Yes, if you so like. And I went on talking to him until I (found) the signs of anger disappeared on his face and (his seriousness was changed to a happy mood and as a result thereof) his face had the natural tranquillity upon it and he laughed and his teeth were the most charming (among the teeth) of all people. Then Allah's Apostle (may peace be upon him) climbed down and I also climbed down and catching hold of the wood of the palm-tree and Allah's Messenger (may peace be upon him) came down (with such ease) as if he was walking on the ground, not touching anything with his hand (to get support). I said: Messenger of Allah, you remained in your apartment for twenty-nine days. He said: (At times) the month consists of twenty-nine days. I stood at the door of the mosque and I called out at the top of my voice: The Messenger of Allah (may peace be upon him) has not divorced his wives (and it was on this occasion that this) verse was revealed: "And if any matter pertaining to peace or alarm comes within their ken, they broadcast it; whereas, if they would refer it to the Apostle and those who have been entrusted with authority amongst them, those of them who are engaged in obtaining intelligence would indeed know (what to do with) it" (iv 83). And it was I who understood this matter, and Allah revealed the verse pertaining to option given to the Holy Prophet (may peace be upon him) in regard to the retaining or divorcing of his wives).