صحیح مسلم ۔ جلد دوم ۔ طلاق کا بیان ۔ حدیث 1199

ایلاء اور عورتوں سے جدا ہونے اور انہیں اختیار دینے اور اللہ کے قول ان تظاہرا علیہ کے بیان میں

راوی: ہارون بن سعید ایلی , عبداللہ بن وہب , سلیمان ابن بلال , یحیی , عبید بن حنین , ابن عباس , ابن عمر

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ أَخْبَرَنِي يَحْيَی أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ بْنُ حُنَيْنٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ يُحَدِّثُ قَالَ مَکَثْتُ سَنَةً وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ آيَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَسْأَلَهُ هَيْبَةً لَهُ حَتَّی خَرَجَ حَاجًّا فَخَرَجْتُ مَعَهُ فَلَمَّا رَجَعَ فَکُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ إِلَی الْأَرَاکِ لِحَاجَةٍ لَهُ فَوَقَفْتُ لَهُ حَتَّی فَرَغَ ثُمَّ سِرْتُ مَعَهُ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنْ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَزْوَاجِهِ فَقَالَ تِلْکَ حَفْصَةُ وَعَائِشَةُ قَالَ فَقُلْتُ لَهُ وَاللَّهِ إِنْ کُنْتُ لَأُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَکَ عَنْ هَذَا مُنْذُ سَنَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ هَيْبَةً لَکَ قَالَ فَلَا تَفْعَلْ مَا ظَنَنْتَ أَنَّ عِنْدِي مِنْ عِلْمٍ فَسَلْنِي عَنْهُ فَإِنْ کُنْتُ أَعْلَمُهُ أَخْبَرْتُکَ قَالَ وَقَالَ عُمَرُ وَاللَّهِ إِنْ کُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَا نَعُدُّ لِلنِّسَائِ أَمْرًا حَتَّی أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی فِيهِنَّ مَا أَنْزَلَ وَقَسَمَ لَهُنَّ مَا قَسَمَ قَالَ فَبَيْنَمَا أَنَا فِي أَمْرٍ أَأْتَمِرُهُ إِذْ قَالَتْ لِي امْرَأَتِي لَوْ صَنَعْتَ کَذَا وَکَذَا فَقُلْتُ لَهَا وَمَا لَکِ أَنْتِ وَلِمَا هَاهُنَا وَمَا تَکَلُّفُکِ فِي أَمْرٍ أُرِيدُهُ فَقَالَتْ لِي عَجَبًا لَکَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ مَا تُرِيدُ أَنْ تُرَاجَعَ أَنْتَ وَإِنَّ ابْنَتَکَ لَتُرَاجِعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ قَالَ عُمَرُ فَآخُذُ رِدَائِي ثُمَّ أَخْرُجُ مَکَانِي حَتَّی أَدْخُلَ عَلَی حَفْصَةَ فَقُلْتُ لَهَا يَا بُنَيَّةُ إِنَّکِ لَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ فَقَالَتْ حَفْصَةُ وَاللَّهِ إِنَّا لَنُرَاجِعُهُ فَقُلْتُ تَعْلَمِينَ أَنِّي أُحَذِّرُکِ عُقُوبَةَ اللَّهِ وَغَضَبَ رَسُولِهِ يَا بُنَيَّةُ لَا يَغُرَّنَّکِ هَذِهِ الَّتِي قَدْ أَعْجَبَهَا حُسْنُهَا وَحُبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهَا ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّی أَدْخُلَ عَلَی أُمِّ سَلَمَةَ لِقَرَابَتِي مِنْهَا فَکَلَّمْتُهَا فَقَالَتْ لِي أُمُّ سَلَمَةَ عَجَبًا لَکَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ قَدْ دَخَلْتَ فِي کُلِّ شَيْئٍ حَتَّی تَبْتَغِيَ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِهِ قَالَ فَأَخَذَتْنِي أَخْذًا کَسَرَتْنِي عَنْ بَعْضِ مَا کُنْتُ أَجِدُ فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهَا وَکَانَ لِي صَاحِبٌ مِنْ الْأَنْصَارِ إِذَا غِبْتُ أَتَانِي بِالْخَبَرِ وَإِذَا غَابَ کُنْتُ أَنَا آتِيهِ بِالْخَبَرِ وَنَحْنُ حِينَئِذٍ نَتَخَوَّفُ مَلِکًا مِنْ مُلُوکِ غَسَّانَ ذُکِرَ لَنَا أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَسِيرَ إِلَيْنَا فَقَدْ امْتَلَأَتْ صُدُورُنَا مِنْهُ فَأَتَی صَاحِبِي الْأَنْصَارِيُّ يَدُقُّ الْبَابَ وَقَالَ افْتَحْ افْتَحْ فَقُلْتُ جَائَ الْغَسَّانِيُّ فَقَالَ أَشَدُّ مِنْ ذَلِکَ اعْتَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَزْوَاجَهُ فَقُلْتُ رَغِمَ أَنْفُ حَفْصَةَ وَعَائِشَةَ ثُمَّ آخُذُ ثَوْبِي فَأَخْرُجُ حَتَّی جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ يُرْتَقَی إِلَيْهَا بِعَجَلَةٍ وَغُلَامٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْوَدُ عَلَی رَأْسِ الدَّرَجَةِ فَقُلْتُ هَذَا عُمَرُ فَأُذِنَ لِي قَالَ عُمَرُ فَقَصَصْتُ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ فَلَمَّا بَلَغْتُ حَدِيثَ أُمِّ سَلَمَةَ تَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّهُ لَعَلَی حَصِيرٍ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ شَيْئٌ وَتَحْتَ رَأْسِهِ وِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ وَإِنَّ عِنْدَ رِجْلَيْهِ قَرَظًا مَضْبُورًا وَعِنْدَ رَأْسِهِ أُهُبًا مُعَلَّقَةً فَرَأَيْتُ أَثَرَ الْحَصِيرِ فِي جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَکَيْتُ فَقَالَ مَا يُبْکِيکَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ کِسْرَی وَقَيْصَرَ فِيمَا هُمَا فِيهِ وَأَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُونَ لَهُمَا الدُّنْيَا وَلَکَ الْآخِرَةُ

ہارون بن سعید ایلی، عبداللہ بن وہب، سلیمان ابن بلال، یحیی، عبید بن حنین، ابن عباس ، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک سال تک ارادہ کرتا رہا کہ میں عمر بن خطاب سے اس آیت کے بارے میں پوچھوں لیکن ان کے رعب کی وجہ سے پوچھنے کی طاقت نہ رکھتا تھا جب ہم لوٹے تو کسی راستہ میں وہ ایک بار پیلو کے درختوں کی طرف قضائے حاجت کے لئے جھکے اور میں ان کے لئے ٹھہر گیا یہاں تک کہ وہ فارغ ہوئے پھر میں ان کے ساتھ چلا تو میں نے کہا اے امیر المومنین! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج میں سے کون ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر زور ڈالا تو انہوں نے کہا وہ حفصہ اور عائشہ تھیں میں نے ان سے کہا اللہ کی قسم اگر میں چاہتا تو آپ سے اس بارے میں ایک سال پہلے پوچھ لیتا لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے ہمت نہ رکھتا تھا انہوں نے کہا ایسا نہ کرو جو تجھے اندازہ ہو کہ اس کا علم میرے پاس ہے تو اس بارے میں مجھ سے پوچھ لیا کرو اگر میں اسے جانتا ہوا تو تجھے خبر دے دوں گا اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اللہ کی قسم! جب ہم جاہلیت میں تھے تو عورتوں کے بارے میں کسی امر کو شمار نہ کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ نے ان کے بارے میں اپنے احکام نازل فرمائے اور ان کے لئے باری مقرر کی جو مقرر کی چنانچہ ایک دن میں کسی کام میں مشورہ کر رہا تھا میری بیوی نے مجھے کہا اگر آپ اس طرح کر لیتے میں نے اس سے کہا تجھے میرے کام میں کیا ہے اور یہاں کہاں؟ اور میں جس کام کا ارادہ کرتا ہوں تجھ پر اس کا بوجھ نہیں ڈالتا اس نے کہا اے ابن خطاب! تعجب ہے آپ پر آپ نہیں چاہتے کہ آپ کو کوئی جواب دیا جائے حالانکہ آپ کی بیٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جواب دیتی ہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پورا دن غصہ کی حالت میں گزرتا ہے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا پھر میں نے اپنی چادر لی اور میں اپنے گھر سے نکلا یہاں تک کہ حفصہ کے پاس پہنچا تو اس سے کہا اے میری بیٹی کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جواب دیتی ہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن غصہ میں گزرتا ہے حفصہ نے کہا اللہ کی قسم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جواب دیتی ہوں میں نے کہا جان لے کہ میں تجھے اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غصہ سے اے میری بیٹی تجھے اس بیوی کا حسن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت دھوکے میں نہ ڈالے پھر میں نکلا یہاں تک کہ ام سلمہ کے پاس اپنی رشتہ داری کی وجہ سے گیا میں نے اس سے گفتگو کی تو انہوں نے مجھے کہا اے ابن خطاب تجھ پر تعجب ہے کہ تم ہر معاملہ میں دخل اندازی کرتے ہو یہاں تک چاہتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کے معاملہ میں بھی دخل دوں مجھے ان کی اس بات سے اس قدر دکھ ہوا کہ مجھے اس غم نے اس نصیحت سے بھی روک دیا جو میں انہیں چاہتا تھا میں ان کے پاس سے نکلا اور میرے ساتھ ایک انصاری رفیق تھا جب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس سے غائب ہوتا تو وہ میرے پاس خبر لاتا اور جب وہ غائب ہوتا تو میں اسے خبر پہنچاتا اور ان دنوں ہم شاہاں غسان میں سے ایک بادشاہ کے حملے سے ڈرتے تھے ہمیں ذکر کیا گیا کہ وہ ہماری طرف چلنے والا ہے تحقیق ہمارے سینے اس کے خوف سے بھرے ہوئے تھے کہ میرے انصاری ساتھی نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کھولو تو میں نے کہا کیا غسانی آگیا؟ اس نے کہا اس سے سخت معاملہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بیویوں سے علیحدہ ہو گئے ہیں میں نے کہا حفصہ اور عائشہ کی ناک خاک آلود ہو پھر میں نے اپنا کپڑا لیا باہر نکلا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بالا خانہ میں تشریف فرما تھے اور اس پر ایک کھجور کی جڑ کے ذریعے چڑھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک سیاہ فام غلام اس کے کنارے پر تھا میں نے کہا یہ عمر ہے میرے لئے اجازت لو حضرت عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سارا واقعہ بیان کیا جب میں ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بات پر پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبسم فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک چٹائی پر تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ تھا جو کھجور کے چھلکے سے بھرا ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں کے پاس سلم جس سے چمڑے کو رنگا جاتا ہے کے پتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سر کی طرف ایک کچا چمڑا لٹکا ہوا تھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو پر چٹائی کے نشان دیکھے تو میں رو دیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تجھے کس چیز نے رلا دیا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول قیصر و کسریٰ کیسے عیش وعشرت میں ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اللہ کے رسول ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ ان کے لئے دنیا اور تمہارے لئے آخرت ہے۔

Abdullah b. Abbas (Allah be pleased with them) reported: I intended to ask 'Umar b. al-Khattab (Allah be pleased with him) about a verse, but I waited for one year to ask him out of his fear, until he went out for Pilgrimage and I also accompanied him. As he came back and we were on the way he stepped aside towards an Arak tree to ease himself. I waited for him until he was free. I then walked along with him and said: Commander of the Faithful, who are the two among the wives of Allah's Messenger (may peace be upon him) who backed up one another (in their demand for extra money)? He said: They were Hafsa and 'A'isha (Allah be pleased with them). I said to him: It is for one year that I intended to ask you about this matter but I could not date so on account of the awe for you. He said: Don't do that. If you think that I have any knowledge, do ask me about that. And if I were to know that, I would inform you. He (the narrator) stated that 'Umar had said: By Allah, during the days of ignorance we had no regard for women until Allah the Exalt- ed revealed about them what He has revealed, and appointed (turn) for them what he appointed. He said: It so happened that I was thinking about some matter that my wife said: I wish you had done that and that. I said to her: It does not concern you and you should not feel disturbed in a matter which I intend to do. She said to me: How strange is it that you, O son of Khattab, do not like anyone to retort upon you, whereas your daughter retorts upon Allah's Messenger (may peace be upon him) until he spends the day in vexation. 'Umar said: I took hold of my cloak, then came out of my house until I visited Hafsa and said to her: O daughter, (I heard) that you retort upon Allah's Messenger (may peace be upon him) until he spends the day in vexation, whereupon Hafsa said: By Allah, we do retort upon him. I said: You should bear in mind, my daughter, that I warn you against the punishment of Allah and the wrath of His Messenger (may peace be upon him). You may not be misled by one whose beauty has fascinated her, and the love of Allah's Messenger (may peace be upon him) for her. I ('Umar) then visited Umm Salama because of my relationship with her and I talked to her. Umm Salama said to me: Umar b. al-Khattab, how strange is it that you meddle with every matter so much so that you are anxious to interfere between Allah's Messenger (may peace be upon him) and his wives, and this perturbed me so much that I refrained from saying what I had to say, so I came out of her apartment, and I had a friend from the Ansar.
When I had been absent (from the company of the Holy Prophet) he used to bring me the news and when he had been absent I used to bring him the news, and at that time we dreaded a king of Ghassan. It was mentioned to us that he intended to attack us, and our minds were haunted by him. My friend, the Ansari, came to me, and he knocked at the door and said: Open it, open it. I said: Has the Ghassani come? He said: (The matter is) more serious than that. The Messenger of Allah (may peace be upon him) has separated himself from his wives. I said: Let the nose of Hafsa and 'A'isha be besmeared with dust. I then took hold of my cloth and went out until I came and found Allah's Messenger (may peace be upon him) in his attic to which he climbed by means of a ladder made of date-palm, and the servant of Allah's Messenger (may peace be upon him) who was black had been sitting at the end of the ladder. I said: This is Umar. So permission was granted to me. I narrated this news to Allah's Messenger (may peace be upon him) and as I narrated the news concerning Umm Salama, Allah's Messenger (may peace be upon him) smiled. He was lying on the mat and there was nothing between him and that (mat), and under his head there was a pillow made of leather and it was stuffed with palm fibres and at his feet were lying a heap of saut tree (acacia niloctica, meant for dyeing) and near his head there was hanging a hide. And I saw the marks of the mat on the side of Allah's Messenger (may peace be upon him), and so I wept. He said: What makes you weep? I said: Messenger of Allah, the Khusrau and the Ceasars spend their lives in the midst of luxuries, whereas you being Allah's Messenger (are leading your life in this poverty). Thereupon Allah's Messenger (may peace be upon him) said: Don't you like that they should have riches of their world, and you have the Hereafter.

یہ حدیث شیئر کریں