مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ کھانوں کے ابواب ۔ حدیث 137

بسم اللہ کہہ کر کھانا شروع کرنا کھانے میں برکت کا باعث ہوتا ہے

راوی:

عن أبي أيوب قال : كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم فقرب طعام فلم أر طعاما كان أعظم بركة منه أول ما أكلنا ولا أقل بركة في آخره قلنا : يا رسول الله كيف هذا ؟ قال : " إنا ذكرنا اسم الله عليه حين أكلنا ثم قعد من أكل ولم يسم الله فأكل معه الشيطان " . رواه في شرح السنة

" حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن ) ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ کھانا سامنے لایا گیا (کھانے کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ) میں نے اس کھانے میں اس وقت جو بڑی برکت دیکھی جب کہ ہم نے کھانا شروع کیا تھا ایسی برکت میں کسی اور کھانے میں نہیں دیکھی اور اس کھانے کے آخر میں میں نے جو کمتر برکت دیکھی ایسی کم برکت بھی اور کسی کھانے میں نہیں دیکھی، چنانچہ ہم نے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! اس کا کیا سبب تھا (کہ اس کھانے میں شروع میں تو اتنی زیادہ برکت دیکھی گئی اور آخر میں اس طرح بے برکتی نظر آئی ) ؟ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درحقیقت کھانے کے شروع میں ہم نے اللہ کا نام تھا لیکن بعد میں ایسا شخص آ کر بیٹھ گیا جس نے کھانا کھایا مگر اللہ کا نام نہیں لیا لہٰذا اس کے ساتھ شیطان نے بھی کھانا کھایا (اس سبب سے آخر میں بے برکتی ہوئی ۔" (شرح السنۃ)

تشریح
" ہم نے اللہ کا نام لیا تھا " اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ بسم اللہ پڑھنے کی سنت محض " بسم اللہ " کہہ لینے سے حاصل ہو جاتی ہے لیکن افضل یہ ہے کہ پوری بسم اللہ یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی جائے ۔
کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ کہنا مستحب ہے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص جنبی (حالت ناپاکی میں) ہو یا کوئی عورت ایام حیض یا حالت نفاس میں ہو تو یہ استحباب اس کے لئے بھی ہے بشرطیکہ بسم اللہ پڑھتے وقت تلاوت کی نیت نہ کرے بلکہ ذکر کی نیت سے پڑھے ورنہ حرام ہو گا (کیونکہ ناپاکی اور حیض و نفاس کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت حرام ہے اور بسم اللہ بھی قرآن کریم ہی کا ایک فقرہ ہے ۔)
جن چیزوں کو کھانا پینا شریعت کی رو سے مکروہ یا حرام ہے ان کو کھاتے پیتے وقت بسم اللہ پڑھنا مستحب نہیں ہے بلکہ اگر کوئی شخص شراب پیتے وقت بسم اللہ پڑھے گا تو وہ کافر ہو جائے گا (بعض علماء نے مطلق کسی بھی حرام چیز کو کھاتے وقت بسم اللہ پڑھنے کو کفر کہا ہے ۔
شیطان کا کھانے میں شریک ہونا اکثر علماء سلف و خلف کے نزدیک حقیقت پر محمول ہے کہ وہ بسم اللہ نہ پڑھ کر ، کھانے والے کے ساتھ کھانے میں حقیقۃً شریک ہوتا ہے جس کی وجہ سے کھانے میں بے برکتی ہو جاتی ہے ۔
پہلے جو یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ بعض علماء کے نزدیک اجتماعی طور پر کھانا کھانے کی صورت میں کسی ایک شخص کا بسم اللہ پڑھ لینا اس کھانے پر موجود سب لوگوں کے لئے کافی ہے اور ہر ایک شخص کا بسم اللہ پڑھنا ضروری نہیں ہے تو یہ حدیث ان علماء کے مسلک کے خلاف ایک دلیل ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں