جامع ترمذی ۔ جلد اول ۔ حج کا بیان ۔ حدیث 922

عمرہ واجب ہے یا نہیں

راوی: محمد بن عبدالاعلی , عمرو بن علی , حجاج , محمد بن منکدر , جابر

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصَّنْعَانِيُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ الْحَجَّاجِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ الْعُمْرَةِ أَوَاجِبَةٌ هِيَ قَالَ لَا وَأَنْ تَعْتَمِرُوا هُوَ أَفْضَلُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا الْعُمْرَةُ لَيْسَتْ بِوَاجِبَةٍ وَکَانَ يُقَالُ هُمَا حَجَّانِ الْحَجُّ الْأَکْبَرُ يَوْمُ النَّحْرِ وَالْحَجُّ الْأَصْغَرُ الْعُمْرَةُ و قَالَ الشَّافِعِيُّ الْعُمْرَةُ سُنَّةٌ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَخَّصَ فِي تَرْکِهَا وَلَيْسَ فِيهَا شَيْئٌ ثَابِتٌ بِأَنَّهَا تَطَوُّعٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِسْنَادٍ وَهُوَ ضَعِيفٌ لَا تَقُومُ بِمِثْلِهِ الْحُجَّةُ وَقَدْ بَلَغَنَا عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ کَانَ يُوجِبُهَا قَالَ أَبُو عِيسَی کُلُّهُ کَلَامُ الشَّافِعِيِّ

محمد بن عبدالاعلی، عمرو بن علی، حجاج، محمد بن منکدر، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمرے کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا عمرہ واجب ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں اگر تم عمرہ کرو تو بہتر ہے (یعنی افضل ہے) امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے بعض علماء کا یہی قول ہے کہ عمرہ واجب نہیں اور کہا جاتا ہے کہ حج کی دو قسمیں ہیں حج اکبر جو قربانی کے دن یعنی دس ذولحجہ کو ہوتا ہے اور دوسرا حج اصغر یعنی عمرہ امام شافعی فرماتے ہیں عمرہ سنت ہے کسی نے اس کے ترک کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی اس کے نفل ہونے کے متعلق کوئی روایت ثابت ہے امام ترمذی کہتے ہیں کہ ایک روایت اسی طرح کی ہے لیکن ضعیف ہے اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا ہمیں معلوم ہوا ہے کہ حضرت ابن عباس اسے واجب کہتے تھے

Sayyidina Jabir (RA) narrated that the Prophet (SAW) was asked if umrah was wajib, he said, ‘No. But, if it is observed then that is better.”

[Ahmed14404]

یہ حدیث شیئر کریں