کھانے پینے کی چیز میں کیڑے پڑ جانے کا مسئلہ
راوی:
وعن أنس قال : أتي النبي صلى الله عليه وسلم بتمر عتيق فجعل يفتشه ويخرج السوس منه . رواه أبو داود
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پرانی کھجور لائی گئی (جس میں کیڑے پڑ گئے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو چیرتے اور اس میں سے کیڑا نکال ( کر پھینک ) دیتے ۔" (ابوداؤد )
تشریح
طبرانی نے بسند حسن حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطریق مرفوع یہ نقل کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کو چیرنے سے منع فرمایا ہے ! اس صورت میں چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل اور قول میں بظاہر تضاد نظر آتا ہے اس لئے کہا جائے گا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو ممانعت منقول ہے اس کا تعلق نئی کھجوروں سے ہے اور اس کا مقصد وہم و وسوسہ سے بچانا ہے ۔ یا یہ کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو فعل منقول ہے وہ بیان جواز پر محمول ہے اور مذکورہ بالا ممانعت نہیں تنزیہی کے طور پر ہے ۔
طیبی کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کھانے میں کیڑا پڑ جائے تو وہ کھانا نجس نہیں ہوتا اور مطالب المؤمنین، میں یہ لکھا ہے کہ اگر کیڑا پنیر یا سیب میں پڑ جائے ( اور کھاتے وقت پیٹ میں چلا جائے ) تو وہ حلال ہو گا کیونکہ اس سے احتراز ممکن نہیں، ہاں اگر ان چیزوں سے نکال دیا گیا ہو تو پھر اس کا حکم مکھی، بھڑ ، پسہ اور ہر اس جانور کا سا ہو گا جو دم مسفوح (جاری خون ) نہیں رکھتا کہ اس کا کھانا حرام ہو گا لیکن اگر وہ پانی یا کھانے میں پڑ جائے تو وہ ناپاک نہیں ہو گا ۔