مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ کھانوں کے ابواب ۔ حدیث 162

جن چیزوں کو شریعت نے حلال یا حرام نہیں کہا ہے ان کا استعمال مباح ہے

راوی:

وعن سلمان قال : سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن السمن والجبن والفراء فقال : " الحلال ما أحل الله في كتابه والحرام ما حرم الله في كتابه وما سكت عنه فهو مما عفا عنه " . رواه ابن ماجه والترمذي وقال : هذا حديث غريب وموقوف على الأصح

اور حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی پنیر اور پوستین یا گورخر کے بارے میں پوچھا گیا (کہ یہ چیزیں حلال ہیں یا حرام ہیں ؟ ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (حلت و حرمت کے سلسلے میں یہ اصول مد نظر رکھو کہ) حلال وہی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے (یعنی جس کا حلال ہونا قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے ) اور حرام وہی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے اور جس چیز سے سکوت فرمایا (یعنی جس کو نہ حلال فرمایا نہ حرام ) وہ اس قسم سے ہے جس کو معاف رکھا گیا ہے (یعنی اس کے استعمال کرنے کو مباح رکھا ہے ) اس روایت کو ابن ماجہ اور ترمذی نے نقل کیا ہے اور (ترمذی نے ) کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے لیکن زیادہ صحیح یہ بات ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے ۔"

تشریح
گھی کے بارے میں تو اس لئے پوچھا گیا کہ بظاہر ابتداء اسلام میں بعض لوگوں کو اس کے حلال ہونے میں شبہ ہوا ہو گا ۔ پنیر کا معاملہ بذات خود محل اشتباہ و سوال تھا کیونکہ اس زمانہ میں وہ چستہ (یعنی اونٹ یا بکری کے اوجھ ) کے ذریعہ بنتا تھا تیسری چیز جس کے بارے میں سوال کیا گیا فراء تھی ۔ اس لفظ فراء کے بارے میں اکثر شارحین نے کہا ہے کہ یہ فرئی کی جمع ہے جس کے معنی گورخر کے ہیں ۔ اور بعضوں نے اس کو فرو کی جمع کہا ہے جس کے معنی پوستین (جانور کی کھال کے کوٹ ) کے ہیں ۔ اسی لئے ترمذی نے اس روایت کو باب اللباس میں نقل کیا ہے ، اس صورت میں کہا جائے گا کہ فراء کے بارے میں سوال کفار کے عمل سے اجتناب کرنے کے جذبہ سے کیا گیا تھا، کیونکہ وہ (کفار ) مردار کی کھال کو دباغت دئیے بغیر اس کی پوستین بنایا کرتے تھے ۔
" اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے " کا مطلب یہ ہے کہ یا تو وہ چیزیں حرام ہیں جن کے حرام ہونے کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے یا اس آیت کریمہ آیت (وَمَا اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا) 59۔ الحشر : 57) کے ذریعہ بطریق اجمال بیان کیا ہے یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے تاکہ ان اکثر چیزوں کے بارے میں اشکال پیدا نہ ہو جو حرام ہیں مگر ان کی حرمت کتاب اللہ میں صراحت کے ساتھ بیان نہیں ہوئی ہے بلکہ ان کا حرام ہونا احادیث نبوی کے ذریعہ ثابت ہے۔ حدیث کا آخری جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمام چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے مباح ہیں لہٰذا جن چیزوں کو شریعت نے حرام قرار نہیں دیا ہے وہ مباح ہوں گی ۔
" یہ حدیث موقوف ہے " کا مطلب یہ ہے کہ یہ حضرت سلمان کا اپنا قول ہے نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔چنانچہ فن حدیث کی اصطلاح میں صحابہ کے قول و فعل کو موقوف کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کو مرفوع کہتے ہیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں