مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ کھانوں کے ابواب ۔ حدیث 163

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عمدہ کھانے کی خواہش کا اظہار

راوی:

وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " وددت أن عندي خبزة بيضاء من برة سمراء ملبقة بسمن ولبن " فقام رجل من القوم فاتخذه فجاء به فقال : " في أي شيء كان هذا ؟ " قال في عكة ضب قال : " ارفعه " . رواه أبو داود وابن ماجه وقال أبو داود : هذا حديث منكر

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجلس میں) فرمایا کہ " میں پسند کرتا ہوں کہ میرے سامنے سفید گجر گیہوں کی روٹی ہو جس کو گھی اور دودھ میں تر کیا گیا ہو ۔" (یہ سن کر ) جماعت میں سے ایک شخص اٹھ کر چلا گیا اور مذکورہ روٹی تیار کر کے لایا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کو دیکھ کر ) فرمایا کہ " اس روٹی کو جو گھی لگا ہوا ہے وہ کس برتن میں تھا ؟" اس نے کہا کہ گوہ کی کھال کے کپے میں تھا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (میں نہیں کھاؤں گا ) اس کو میرے سامنے سے اٹھا لو (ابوداؤد ، ابن ماجہ ، ) اور ابوداؤد نے کہا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے ۔"

تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روٹی کو اپنے سامنے سے اٹھانے کا حکم اس بنا پر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گوہ سے طبعی نفرت رکھتے تھے کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے علاقے میں نہیں پائی جاتی تھی جیسا کہ پچھلے صفحات میں حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت اس کے متعلق گزر چکی ہے نہ کہ اس کے اٹھانے کا حکم اس سبب سے تھا کہ گواہ کی کھال نجس ہوتی ہے کیونکہ اگر گوہ کی کھال نجس ہوتی تو اس کھال کے کپے میں رکھے ہوئے گھی سے ترکی ہوئی روٹی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھینک دینے کا حکم دیتے اور دوسروں کو بھی اس کے کھانے سے منع فرما دیتے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ روٹی کو طلب کرنا اور خواہش نفس کے مطابق اس طرح کی تمنا کا اظہار کرنا ایک ایسا واقعہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج کے بالکل خلاف معلوم ہوتا ہے ۔ اسی لئے ابوداؤد نے اس روایت کو منکر کہا ہے اور اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس صورت میں یہی توجیہ ہو سکتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی خواہش کا اظہار محض بیان جواز کی خاطر کیا ۔

یہ حدیث شیئر کریں