مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ کھانوں کے ابواب ۔ حدیث 167

ایک برتن میں کھانے کی چیز مختلف قسموں کی ہو تو اپنے سامنے سے کھانے کی قید نہیں ہوگی

راوی:

وعن عكراش بن ذؤيب قال : أتينا بجفنة كثيرة من الثريد والوذر فخبطت بيدي في نواحيها وأكل رسول الله صلى الله عليه وسلم من بين يديه فقبض بيده اليسرى على يدي اليمنى ثم قال : " يا عكراش كل من موضع واحد فإنه طعام واحد " . ثم أتينا بطبق فيه ألوان التمر فجعلت آكل من بين يدي وجالت يد رسول الله صلى الله عليه وسلم في الطبق فقال : " يا عكراش كل من حيث شئت فإنه غير لون واحد " ثم أتينا بماء فغسل رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه ومسح بلل كفيه وجهه وذراعيه ورأسه وقال : " يا عكراش هذا الوضوء مما غيرت النار " . رواه الترمذي

اور حضرت عکراش بن ذویب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک موقع پر ) ہمارے سامنے ایک بڑا پیالہ لایا گیا جس میں بہت سا ثرید (شوربے میں بھیگے ہوئے روٹی کے ٹکڑے ) اور (گوشت کی ) بوٹیاں تھیں، (کھانے کے دوران ) میں اپنا ہاتھ پیالے کے ہر طرف دوڑانے لگا ۔ (یعنی اپنے ) سامنے سے لقمہ اٹھانے کے بجائے ہر طرف ہاتھ ڈالنے لگا ) جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آگے سے کھا رہے تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بائیں ہاتھ سے میرا داہنا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا کہ عکراش ۔ ایک جگہ سے (یعنی اپنے آگے سے ) کھاؤ کیونکہ یہ ایک ( ہی طرح کا کھانا ہے ۔" پھر ہمارے آگے ایک طباق لایا گیا جس میں قسم قسم کی کھجوریں تھیں ، میں نے (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق ) اپنے سامنے سے (کھجوریں اٹھا اٹھا کر ) کھانا شروع کیا لیکن (اب ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ طباق میں ( ہر طرف ) گردش کرنے لگا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طبعی پسند کے مطابق طباق کے ہر کنارے سے کھجوریں اٹھا اٹھا کر کھانے لگے اور اس کا مقصد لوگوں پر یہ ظاہر کرنا تھا کہ اگر وہ چاہیں تو کھجوریں ہر طرف سے اٹھا کر کھا سکتے ہیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اپنے اس فعل کے ذریعہ ہی بیان نہیں کیا بلکہ قول کے ذریعہ بھی تعلیم دی کہ ) پھر فرمایا: عکراش، ! جس طرف سے چاہو کھاؤ کیونکہ یہ کھجوریں ایک (ہی ) قسم کی نہیں ہیں۔" اس کے بعد ہمارے پاس پانی لایا گیا چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اور اپنے ہاتھوں کی تری اپنے منہ اور کہنیوں تک ہاتھوں پر اور سر پر مل لی اور فرمایا " عکراش! یہ اس کھانے کے بعد کا وضو ہے جس کو آگ نے متغیر کیا ہے (یعنی یہ ہاتھ اور منہ دھونا کہ جس کو وضو طعام کہا جاتا ہے اس کھانے کی وجہ سے ہے جس کو آگ پر پکایا گیا ہے ۔" (ترمذی )

تشریح
" ایک طرح کا کھانا ہے " کا مطلب یہ ہے کہ جب پورے پیالے میں یکساں قسم کا کھانا ہے اور اس کی ہر طرف ایک ہی طرح کی چیز ہے تو پھر پیالے کی ساری اطراف میں ہاتھ پکانا طمع و حرص کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے یعنی اگر کھانا کئی طرح کا ہوتا یا ایک ہی ہوتا لیکن پیالے کے ہر حصے میں الگ الگ رنگ ہوتا تو اپنی طبیعت کے میلان کی بناء پر ہر طرف سے کھانا مناسب معلوم ہوتا مگر جب کہ کھانا ایک ہی طرح کا ہے اور یکساں رنگ کا ہے تو پھر ہر طرف ہاتھ دوڑانا معیوب و مکروہ ہے ! " جس طرف سے چاہو کھاؤ " میں بظاہر درمیان کی جگہ مستثنیٰ ہے کیونکہ برکت نازل ہونے کی وہی جگہ ہے۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ درمیان کی جگہ سے نہ کھایا جانا اس کھانے کے ساتھ مخصوص ہو جو ایک رنگ کا ہو اور چونکہ یہاں (کھجور کھانے کی صورت میں ) ایک رنگت نہیں تھی اس لئے درمیان میں سے بھی کھجور اٹھا کر کھانے میں کوئی مضائقہ نہ سمجھا گیا ہو ! ابن ملک کہتے ہیں کہ اس ارشاد سے یہ مفہوم بھی لیا گیا ہے کہ اگر کھانے کی چیز از قسم میوہ و پھل ہو اور وہ ایک ہی طرح اور ایک ہی رنگ کی ہو تو اس صورت میں برتن کے ہر طرف ہاتھ نہ لپکانا چاہئے ۔ جیسا کہ طعام کا حکم ہے ۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر ایک برتن میں کھانا مختلف رنگت کا ہو تو صرف اپنے سامنے سے کھانے کی قید نہیں ہو گی بلکہ جس طرف سے جی چاہے کھایا جا سکتا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں