موت کی اطلاع پہنچانے سے متعلق
راوی: عبیداللہ بن فضالة بن ابراہیم , عبداللہ , ابن یزیدمقری , محمد بن عبداللہ بن یزیدمقری , سعید , ربیعة بن سیف معافری , ابوعبدالرحمن حبلی , عبداللہ بن عمر
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ فَضَالَةَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ هُوَ ابْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ ح وَأَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْمُقْرِيئُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ سَعِيدٌ حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ سَيْفٍ الْمَعَافِرِيُّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ نَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ بَصُرَ بِامْرَأَةٍ لَا تَظُنُّ أَنَّهُ عَرَفَهَا فَلَمَّا تَوَسَّطَ الطَّرِيقَ وَقَفَ حَتَّی انْتَهَتْ إِلَيْهِ فَإِذَا فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا مَا أَخْرَجَکِ مِنْ بَيْتِکِ يَا فَاطِمَةُ قَالَتْ أَتَيْتُ أَهْلَ هَذَا الْمَيِّتِ فَتَرَحَّمْتُ إِلَيْهِمْ وَعَزَّيْتُهُمْ بِمَيِّتِهِمْ قَالَ لَعَلَّکِ بَلَغْتِ مَعَهُمْ الْکُدَی قَالَتْ مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ أَکُونَ بَلَغْتُهَا وَقَدْ سَمِعْتُکَ تَذْکُرُ فِي ذَلِکَ مَا تَذْکُرُ فَقَالَ لَهَا لَوْ بَلَغْتِهَا مَعَهُمْ مَا رَأَيْتِ الْجَنَّةَ حَتَّی يَرَاهَا جَدُّ أَبِيکِ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ رَبِيعَةُ ضَعِيفٌ
عبیداللہ بن فضالة بن ابراہیم، عبد اللہ، ابن یزید مقری، محمد بن عبداللہ بن یزید مقری، سعید، ربیعة بن سیف معافری، ابوعبدالرحمن حبلی، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ ایک روز رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ جا رہے تھے کہ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خاتون کو دیکھا ہمارے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خاتون کو نہیں پہچانا جس وقت راستہ کے درمیان پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے یہاں تک کہ وہ خاتون آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاس پہنچ گئی اس وقت علم ہوا کہ حضرت فاطمہ ان کی صاحبزادی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے فاطمہ! تم اپنے مکان سے کس وجہ سے نکل گئیں۔ انہوں نے فرمایا کہ میں اس مرنے والے کے گھر کے لوگوں کے پاس گئی تھی ان پر میں نے رحمت کی دعا کی۔ اور ان کی مصیبت کی تعزیت کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم ان کے ہمراہ قبرستان تک گئی تھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی پناہ میں کس وجہ سے قبرستان تک جاتی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں سن چکی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سلسلہ میں فرمایا تھا اگر تم ان کے ہمراہ قبرستان تک چلی جاتی تو تم جنت کو نہ دیکھتی یہاں تک کہ تمہارے والد کے دادا۔ (یعنی عبدالمطلب نہ دیکھتے اور وہ کبھی بھی نہیں دیکھیں گے کیونکہ وہ کفر کی حالت میں مرے ہیں پھر تم بھی نہیں دیکھو گی۔) امام نسائی فرماتے ہیں کہ ربیعہ ضعیف راوی ہے ۔
It was narrated from Abu Al-Hasan, the freed slave of Umm Qais bint Mih that Umm Qais said: “My son died, and I felt very sad. I said to the one who was washing him: ‘Do not wash my son with cold water and kill him.” ‘Ukashah bin Mihsan went to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم g and told him what she had said, and he smiled then said: “What did she say, may Allah give her long life?” And we do not know of any woman who lived as long as she lived. (Da’if)