مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ کھانوں کے ابواب ۔ حدیث 170

چھری سے گوشت کاٹ کر کھانا جائز ہے

راوی:

عن المغيرة بن شعبة قال : ضفت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة فأمر بجنب فشوي ثم أخذ الشفرة فجعل يحز لي بها منه فجاء بلال يؤذنه بالصلاة فألقى الشفرة فقال : " ما له تربت يداه ؟ " قال : وكان شاربه وفاء فقال لي : " أقصه على سواك ؟ أو قصه على سواك " . رواه الترمذي

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک رات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ " کسی شخص کے ہاں " مہمان ہوا ۔ اس شخص نے (ہمارے لئے ) ایک بکری ذبح کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (بکری ) کا ایک پہلو بھوننے کا حکم دیا، جب وہ پہلو بھون دیا گیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھری لی ۔ پھر اس کے ذریعہ اس پہلو میں سے میرے لئے (بوٹیاں کاٹنے لگے، اتنے میں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی اطلاع دینے کے لئے آ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری کو ڈال دیا اور (بطریق تعجب ) فرمایا کہ بلال کو کیا ہوا ؟ (کہ ایسے وقت بلانے آ گیا ) اس کے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں ۔" حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (اس وقت ) اس کی لبیں (یعنی مونچھیں ) بڑھی ہوئی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ۔" میں تمہارے لئے (تمہاری ) لبیں مسواک پر کتر دوں ، یا یہ فرمایا کہ ۔ لبیں مسواک پر ) کتر ڈالو ۔" (ترمذی )

تشریح
" اس کے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں ۔" یہ اصل میں ذلت و خواری اور فقر و افلاس سے کنایہ ہے اور ایک طرح بد دعا کے مرادف ہے اس جملہ کا استعمال عام طور پر اہل عرب کے ہاں اس شخص کے لئے کیا جاتا ہے جس کو ملامت کرنا مقصود ہوتا ہے اور حقیقت میں اس بددعا کے واقع ہو جانے کی طلب و خواہش نہیں ہوتی بلکہ روز مرہ کے محاورے کے طور پر اس جملہ کو بولتے ہیں اس سے مراد محض شرزنش و ملامت ہوتی ہے چنانچہ اس موقعہ پر بھی گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ناگوار گزرا کہ جب نماز کا ابھی کافی وقت باقی ہے تو بلال نے کھانے کی مشغولیت کے دوران نماز کے لئے کیوں اٹھانا چاہا اور یہ بھی احتمال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملہ کا استعمال میزبان کی کیفیات و حالات کو دیکھتے ہوئے فرمایا ہو کہ اس وقت یقینا میزبان کو بڑی ذہنی اذیت و کوفت ہوئی ہو گی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے یا ان کی دلجوئی کے لئے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اس جملہ کے ذریعہ اظہار ناگواری فرمایا ۔
" اس کی لبیں بڑھی ہوئی تھیں " شارحین نے اس جملہ کی وضاحت کئی طرح کی ہے ، ایک یہ کہ شاربہ کی ضمیر حدیث کے راوی حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف راجع ہے ۔ اس صورت میں اگرچہ ظاہری اسلوب کا تقاضا یہ تھا کہ یوں کہا جاتا وکان شاربی (اور میری لبیں بڑھی ہوئی تھیں ) یعنی ضمیر متکلم کا استعمال ہوتا لیکن اس کے بجائے و شاربہ کہہ کر غائب کی ضمیر استعمال کی اس کی وجہ محض تفنن کلام ہے جس کو اہل معانی کی اصطلاح میں تجرید و التفات کہا جاتا ہے ، لہٰذا اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ میری لبیں بڑھی ہوئی تھیں،" نیز مسواک پر کترنے " کا مطلب یہ تھا کہ لبوں کے نیچے مسواک رکھ کر لبوں کو چھری سے کاٹ ڈالوں ۔
" اور یا یہ فرمایا ۔" یہ اصل میں راوی کا اپنے شک کو ظاہر کرنا ہے کہ یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا جملہ ارشاد فرمایا کہ لبیں مسواک پر رکھ کاٹ ڈالو یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ میں تمہاری لبیں کاٹوں بلکہ انہیں (حضرت مغیرہ ) کو حکم فرمایا کہ خود اپنی لبیں کاٹ ڈالیں ۔ شارحین نے دوسری وضاحت یہ بیان کی ہے کہ شاربہ کی ضمیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف راجع کی جائے یعنی حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لبیں بڑھی ہوئی تھیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ میں اپنی لبوں کو تمہارے لئے کتروں گا کہ وہ بال مجھ سے جدا ہو کر تمہارے پاس رہیں اور تم ان سے برکت حاصل کرو، یا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ تم میری لبوں کے بال کتر دو۔

یہ حدیث شیئر کریں