مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ کھانوں کے ابواب ۔ حدیث 182

مہمان نوازی کی اہمیت

راوی:

عن المقدام بن معدي كرب سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول : " أيما مسلم ضاف قوما فأصبح الضيف محروما كان حقا على كل مسلم نصره حتى يأخذ له بقراه من ماله وزرعه " . رواه الدارمي وأبو داود
وفي رواية : " وأيما رجل ضاف قوما فلم يقروه كان له أن يعقبهم بمثل قراه "

حضرت مقدام بن معد یکرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص کسی قوم میں (کسی کے یہاں ) مہمان ہوا اور اس نے محرومی کی حالت میں صبح کی (یعنی اس کے میزبان نے رات میں اس کی مہمان داری نہیں کی، تو اس کا ہر مسلمان پر یہ حق ہو گا کہ وہ اس کی مدد کرے، یہاں تک کہ وہ (جس شخص کے یہاں مہمان ہوا ہے ) اس کے مال اور اس کی کھیتی باڑی سے مہمانداری کے بقدر (یعنی ایک مہمان کے کھانے پینے کے بقدر ) وصول کرے ۔" (دارمی، ابوداؤد، ) اور ابوداؤد کی ایک روایت میں یوں ہے کہ جو شخص کسی قوم میں مہمان ہوا، اور ان لوگوں نے اس کی مہمان داری نہیں کی تو اس کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ ان لوگوں کا پیچھا پکڑ لے اور ان کے مال و اسباب سے اپنی مہمان داری ) کے بقدر وصول کرے ۔"

تشریح
اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے بھی مطلق ضیافت (مہمان داری ) کرنے کا وجوب ثابت ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ بلکہ اس حدیث کی بھی وہی تاویل و توجیہ کی جائے گی، جو پیچھے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں کی گئی ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں