سنن ابوداؤد ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 929

نماز میں چھینک کا جواب دینا جائز نہیں ہے

راوی: مسدد , یحیی , عثمان بن ابی شیبہ , اسمعیل بن ابراہیم , حجاج , صواف , یحیی بن ابی کثٰیرہلال بن ابی میمونہ , عطاء بن یسار , معاویہ بن حکم سُلَمی

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی ح و حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمَعْنَی عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ أَبِي کَثِيرٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَکَمِ السُّلَمِيِّ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَطَسَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ فَقُلْتُ يَرْحَمُکَ اللَّهُ فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ فَقُلْتُ وَاثُکْلَ أُمِّيَاهُ مَا شَأْنُکُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَی أَفْخَاذِهِمْ فَعَرَفْتُ أَنَّهُمْ يُصَمِّتُونِي فَقَالَ عُثْمَانُ فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُسَکِّتُونِي لَکِنِّي سَکَتُّ قَالَ فَلَمَّا صَلَّی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَبِي وَأُمِّي مَا ضَرَبَنِي وَلَا کَهَرَنِي وَلَا سَبَّنِي ثُمَّ قَالَ إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَحِلُّ فِيهَا شَيْئٌ مِنْ کَلَامِ النَّاسِ هَذَا إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّکْبِيرُ وَقِرَائَةُ الْقُرْآنِ أَوْ کَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا قَوْمٌ حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ وَقَدْ جَائَنَا اللَّهُ بِالْإِسْلَامِ وَمِنَّا رِجَالٌ يَأْتُونَ الْکُهَّانَ قَالَ فَلَا تَأْتِهِمْ قَالَ قُلْتُ وَمِنَّا رِجَالٌ يَتَطَيَّرُونَ قَالَ ذَاکَ شَيْئٌ يَجِدُونَهُ فِي صُدُورِهِمْ فَلَا يَصُدُّهُمْ قُلْتُ وَمِنَّا رِجَالٌ يَخُطُّونَ قَالَ کَانَ نَبِيٌّ مِنْ الْأَنْبِيَائِ يَخُطُّ فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ فَذَاکَ قَالَ قُلْتُ جَارِيَةٌ لِي کَانَتْ تَرْعَی غُنَيْمَاتٍ قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ إِذْ اطَّلَعْتُ عَلَيْهَا اطِّلَاعَةً فَإِذَا الذِّئْبُ قَدْ ذَهَبَ بِشَاةٍ مِنْهَا وَأَنَا مِنْ بَنِي آدَمَ آسَفُ کَمَا يَأْسَفُونَ لَکِنِّي صَکَکْتُهَا صَکَّةً فَعَظُمَ ذَاکَ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ أَفَلَا أُعْتِقُهَا قَالَ ائْتِنِي بِهَا قَالَ فَجِئْتُهُ بِهَا فَقَالَ أَيْنَ اللَّهُ قَالَتْ فِي السَّمَائِ قَالَ مَنْ أَنَا قَالَتْ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ

مسدد، یحیی، عثمان بن ابی شیبہ، اسماعیل بن ابراہیم، حجاج، صواف، یحیی بن ابی کثیرہلال بن ابی میمونہ، عطاء بن یسار، حضرت معاویہ بن حکم سُلَمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی (دورانِ نماز) ایک شخص کو چھینک آگئی اور میں نے (دورانِ نماز ہی) یرحمک اللہ کہہ دیا اس پر لوگ مجھے گھورنے لگے۔ میں نے کہا تیری ماں تجھ کو روئے تمہیں کیا ہو گیا ہے جو میری طرف اس طرح سے دیکھ رہے ہو؟ (مجھے نماز میں گفتگو کرتا دیکھ کر بطور تنبیہہ) اپنی رانوں پر ہاتھ مارنے لگے تب میں سمجھا کہ وہ مجھ کو خاموش کرانا چاہتے ہیں۔ عثمان کی روایت یوں ہے کہ جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھ کو خاموش ہونے کو کہہ رہے ہیں تب میں خاموش ہو گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھ چکے تو (فدا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر میرے ماں باپ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ مجھ کو مارا، نہ ڈانٹا اور نہ برا بھلا کہا، بس اتنا فرمایا کہ یہ نماز ہے اس میں گفتگو کرنا جائز نہیں ہے۔ اس میں تو صرف تسبیح، تکبیر اور قرأتِ قرآن ہوتی ہے اور بس! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی سے ملتی جلتی کوئی بات فرمائی تھی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نیا نیا مسلمان ہوا ہوں اور اب اللہ نے ہمیں دین اسلام عطا فرما دیا ہے لیکن ہم میں سے کچھ لوگ ابھی کاہنوں کے پاس جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو مت جایا کر میں نے عرض کیا ہم میں سے کچھ لوگ شگون لیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ محض ان کے دلوں کا وہم ہے پس (یہ شگون) ان کو (کام سے) نہ روکے (یعنی وہ اپنے ارادہ پر عمل کریں) میں نے کہا ہم میں سے کچھ خط کھینچتے (اور اس سے مستقبل کا حال معلوم کرتے) ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ ایک نبی تھے جو خط کھینچتے تھے (اور اس سے مستقبل کا حال معلوم کرتے تھے۔ مگر یہ علم ان کو بطور معجزہ عطا ہوا تھا) پس جس کا خط اس کے موافق ہے وہ درست ہو سکتا ہے (اور یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ تو ایک نبی کا معجزہ تھا) اس کے بعد میں نے عرض کیا میرے پاس ایک باندی ے جو احد پہاڑ اور مقام جوانیہ کے پاس بکریاں چرایا کرتی تھی ایک دن میں وہاں پہنچا تو اس نے بتایا کہ ایک بکری کو بھیڑیا لے گیا ہے۔ آخر میں بھی انسان تھا مجھے غصہ آگیا جیسا کہ ایسے مواقع پر لوگوں کو آجایا کرتا ہے پس میں نے اس کو ایک ہی مرتبہ میں دھن کر رکھ دیا میرا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گراں گزرا اس لئے میں نے عرض کیا کیا میں اس کو آزاد کردوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسے میرے پاس لے کر آ۔ میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا۔ اللہ کہاں؟ اس نے جواب دیا آسمان پر! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا۔ میں کون ہوں؟ اس نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کو آزاد کر دے کیونکہ یہ مومن ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں