اس باب میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
راوی: موسیٰ بن اسمٰعیل , ابراہیم ابن شہاب زہری , عمر بن اسید بن جاریہ ثقفی جو بنو زہرہ کے حلیف اور ابوہریرہ
حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ أَسِيدِ بْنِ جَارِيَةَ الثَّقَفِيُّ حَلِيفُ بَنِي زُهْرَةَ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةً عَيْنًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ حَتَّی إِذَا کَانُوا بِالْهَدَةِ بَيْنَ عَسْفَانَ وَمَکَّةَ ذُکِرُوا لِحَيٍّ مِنْ هُذَيْلٍ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو لِحْيَانَ فَنَفَرُوا لَهُمْ بِقَرِيبٍ مِنْ مِائَةِ رَجُلٍ رَامٍ فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ حَتَّی وَجَدُوا مَأْکَلَهُمْ التَّمْرَ فِي مَنْزِلٍ نَزَلُوهُ فَقَالُوا تَمْرُ يَثْرِبَ فَاتَّبَعُوا آثَارَهُمْ فَلَمَّا حَسَّ بِهِمْ عَاصِمٌ وَأَصْحَابُهُ لَجَئُوا إِلَی مَوْضِعٍ فَأَحَاطَ بِهِمْ الْقَوْمُ فَقَالُوا لَهُمْ انْزِلُوا فَأَعْطُوا بِأَيْدِيکُمْ وَلَکُمْ الْعَهْدُ وَالْمِيثَاقُ أَنْ لَا نَقْتُلَ مِنْکُمْ أَحَدًا فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ أَيُّهَا الْقَوْمُ أَمَّا أَنَا فَلَا أَنْزِلُ فِي ذِمَّةِ کَافِرٍ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا نَبِيَّکَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَمَوْهُمْ بِالنَّبْلِ فَقَتَلُوا عَاصِمًا وَنَزَلَ إِلَيْهِمْ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ عَلَی الْعَهْدِ وَالْمِيثَاقِ مِنْهُمْ خُبَيْبٌ وَزَيْدُ بْنُ الدَّثِنَةِ وَرَجُلٌ آخَرُ فَلَمَّا اسْتَمْکَنُوا مِنْهُمْ أَطْلَقُوا أَوْتَارَ قِسِيِّهِمْ فَرَبَطُوهُمْ بِهَا قَالَ الرَّجُلُ الثَّالِثُ هَذَا أَوَّلُ الْغَدْرِ وَاللَّهِ لَا أَصْحَبُکُمْ إِنَّ لِي بِهَؤُلَائِ أُسْوَةً يُرِيدُ الْقَتْلَی فَجَرَّرُوهُ وَعَالَجُوهُ فَأَبَی أَنْ يَصْحَبَهُمْ فَانْطُلِقَ بِخُبَيْبٍ وَزَيْدِ بْنِ الدَّثِنَةِ حَتَّی بَاعُوهُمَا بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ فَابْتَاعَ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلٍ خُبَيْبًا وَکَانَ خُبَيْبٌ هُوَ قَتَلَ الْحَارِثَ بْنَ عَامِرٍ يَوْمَ بَدْرٍ فَلَبِثَ خُبَيْبٌ عِنْدَهُمْ أَسِيرًا حَتَّی أَجْمَعُوا قَتْلَهُ فَاسْتَعَارَ مِنْ بَعْضِ بَنَاتِ الْحَارِثِ مُوسًی يَسْتَحِدُّ بِهَا فَأَعَارَتْهُ فَدَرَجَ بُنَيٌّ لَهَا وَهِيَ غَافِلَةٌ حَتَّی أَتَاهُ فَوَجَدَتْهُ مُجْلِسَهُ عَلَی فَخِذِهِ وَالْمُوسَی بِيَدِهِ قَالَتْ فَفَزِعْتُ فَزْعَةً عَرَفَهَا خُبَيْبٌ فَقَالَ أَتَخْشَيْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ مَا کُنْتُ لِأَفْعَلَ ذَلِکَ قَالَتْ وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ أَسِيرًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ خُبَيْبٍ وَاللَّهِ لَقَدْ وَجَدْتُهُ يَوْمًا يَأْکُلُ قِطْفًا مِنْ عِنَبٍ فِي يَدِهِ وَإِنَّهُ لَمُوثَقٌ بِالْحَدِيدِ وَمَا بِمَکَّةَ مِنْ ثَمَرَةٍ وَکَانَتْ تَقُولُ إِنَّهُ لَرِزْقٌ رَزَقَهُ اللَّهُ خُبَيْبًا فَلَمَّا خَرَجُوا بِهِ مِنْ الْحَرَمِ لِيَقْتُلُوهُ فِي الْحِلِّ قَالَ لَهُمْ خُبَيْبٌ دَعُونِي أُصَلِّي رَکْعَتَيْنِ فَتَرَکُوهُ فَرَکَعَ رَکْعَتَيْنِ فَقَالَ وَاللَّهِ لَوْلَا أَنْ تَحْسِبُوا أَنَّ مَا بِي جَزَعٌ لَزِدْتُ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا وَاقْتُلْهُمْ بَدَدًا وَلَا تُبْقِ مِنْهُمْ أَحَدًا ثُمَّ أَنْشَأَ يَقُولُ فَلَسْتُ أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَی أَيِّ جَنْبٍ کَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي وَذَلِکَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَشَأْ يُبَارِکْ عَلَی أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ ثُمَّ قَامَ إِلَيْهِ أَبُو سِرْوَعَةَ عُقْبَةُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَتَلَهُ وَکَانَ خُبَيْبٌ هُوَ سَنَّ لِکُلِّ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا الصَّلَاةَ وَأَخْبَرَ أَصْحَابَهُ يَوْمَ أُصِيبُوا خَبَرَهُمْ وَبَعَثَ نَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ إِلَی عَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ حِينَ حُدِّثُوا أَنَّهُ قُتِلَ أَنْ يُؤْتَوْا بِشَيْئٍ مِنْهُ يُعْرَفُ وَکَانَ قَتَلَ رَجُلًا عَظِيمًا مِنْ عُظَمَائِهِمْ فَبَعَثَ اللَّهُ لِعَاصِمٍ مِثْلَ الظُّلَّةِ مِنْ الدَّبْرِ فَحَمَتْهُ مِنْ رُسُلِهِمْ فَلَمْ يَقْدِرُوا أَنْ يَقْطَعُوا مِنْهُ شَيْئًا وَقَالَ کَعْبُ بْنُ مَالِکٍ ذَکَرُوا مَرَارَةَ بْنَ الرَّبِيعِ الْعَمْرِيَّ وَهِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ الْوَاقِفِيَّ رَجُلَيْنِ صَالِحَيْنِ قَدْ شَهِدَا بَدْرًا
موسی بن اسماعیل، ابراہیم ابن شہاب زہری، عمر بن اسید بن جاریہ ثقفی جو بنو زہرہ کے حلیف اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دوست تھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس آدمیوں کی ایک جماعت پر عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ثابت انصاری کو سردار بنا کر جاسوسی کے لئے روانہ فرمایا۔ جب یہ لوگ ہدہ میں پہنچے جو عسفان اور مکہ کے درمیان میں ہے تو قبیلہ لحیان جو قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ ہے اسے کسی نے ان کے آنے کی خبر کردی۔ انہوں نے سو تیر اندازوں کو ان کے تعاقب میں پتہ لگانے کے لئے روانہ کردیا۔ ایک جگہ جہاں اس جماعت نے قیام کیا تھا اور مدینہ کی کھجوریں کھائیں تھیں ان کی گٹھلیوں کو دیکھ کر ان تیر اندازوں نے سمجھ لیا اور پھر پیروں کے نشان سے پتہ لگانے لگے۔ جب حضرت عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے دیکھا کہ یہ قریب آ گئے ہیں تو ایک پہاڑی پر پناہ لی تیر اندازوں نے پہاڑی کو گھیر لیا اور کہا کہ تم سے ہم وعدہ کرتے ہیں اگر تم نے خود کو ہمارے حوالے کردیا تو کسی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ حضرت عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ساتھیوں سے کہا کہ میں تو کافر کی پناہ پسند نہیں کرتا ہوں پھر کہا اے اللہ! ہمارے حال سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع فرما دے! بنی لحیان نے ان پر تیر برسانا شروع کردیئے۔ آخر حضرت عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے سات ساتھی شہید ہو گئے اور خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ زید بن وثنہ اور عبداللہ بن طارق نے مجبور ہو کر خود کو کافروں کے حوالہ کردیا۔ کافروں نے کمان کی تانت نکال کر ان کی مشکیں کسیں تو عبداللہ بن طارق نے کہا یہ پہلا دغا ہے اللہ کی قسم! میں تمہارے ساتھ ہرگز نہ جاؤں گا۔ میں تو اپنے ساتھیوں ہی میں جانا پسند کرتا ہوں کافروں نے بہت کھینچا کہ کسی طرح مکہ لے جائیں مگر وہ نہیں گئے آخر خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لے گئے اور مکہ جا کر بیچ ڈالا۔ چونکہ یہ واقعہ بدر کے بعد ہوا تھا اس لئے خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حارث بن عامر بن نوفل کے بیٹوں نے خرید لیا کیونکہ خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بدر میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔ حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت دن قید رہے جب انہوں نے قتل کی ٹھان لی تو ایک دن حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حارث کی بیٹی سے استرہ مانگا اس نے دے دیا۔ اتفاق سے اسی وقت اس کا بچہ خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلا گیا خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی ران پر بٹھا لیا عورت نے دیکھا کہ بچہ خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ران پر بیٹھا ہے اور استرہ خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں ہے تو وہ سخت پریشان ہوگئی اور خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی پریشانی پہچان لی اور کہا کیا تو اس وجہ سے خوف کھا رہی ہے کہ میں اس بچہ کو مار ڈالوں گا؟ میں ایسا نہیں کروں گا اس عورت نے کہا اللہ کی قسم! میں نے کوئی قیدی خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ نیک نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم میں نے ایک دن دیکھا کہ خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ انگور کا خوشہ لئے ہوئے کھا رہا ہے حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں بندھا ہوا تھا اور پھر اس زمانہ میں کوئی میوہ مکہ میں نہیں تھا۔ عورت کا بیان ہے کہ یہ میوہ اللہ تعالیٰ نے خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیجا تھا۔ غرض جب حارث کے بیٹے خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کرنے کے لئے حرم مکہ کی حد سے باہر لے گئے تو خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ذرا مجھے دو نفل پڑھ لینے دو!چنانچہ اجازت کے بعد دو رکعت پڑھیں پھر کہا! واللہ اگر یہ خیال نہ کرو کہ میں موت سے ڈرتا ہوں تو اور نماز پڑھتا! اس کے بعد خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دعا مانگی یا اللہ! ان کو تباہ کردے اور کسی ایک کو زندہ مت چھوڑ پھر یہ اشعار پڑھے جب میں اسلام پر مر رہا ہوں تو کوئی ڈر نہیں ہے کسی بھی کروٹ پر گروں میرا مرنا اللہ کی محبت میں ہے اگر وہ چاہے تو ہر ٹکڑے اور جسم کے اعضاء کے بدلہ میں بہترین ثواب عطا فرمائے اور برکت دے اس کے بعد حارث کے بیٹے ابوسروعہ عقبہ نے خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کردیا۔ یہ سنت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکلی کہ جب کوئی مسلمان بے بس ہو کر مارا جانے لگے تو دو رکعت نماز پڑھ لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی خبراسی دن دے دی جس دن وہ شہید ہوئے قریش نے عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرنے کی خبر سنکر کچھ لوگ بھیجے تاکہ وہ عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لاش سے کوئی حصہ کاٹ کر لائیں تاکہ ہم پہچانیں۔ کیونکہ عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کافروں کے ایک بڑے آدمی کو قتل کیا تھا۔ اللہ نے بے شمار بھڑوں کو ان کی لاش پر بھیج دیا تاکہ قریش کے آدمی لاش کے قریب نہ آنے پائیں اور کچھ کاٹنے نہ پائیں کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ مجھ سے لوگوں نے بیان کیا ہے کہ مرارہ بن ربیع عمری اور بلال بن امیہ واقعی دو نیک آدمی تھے جو بدر میں شریک تھے (مگر تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے) ۔
Narrated Abu Huraira:
Allah's Apostle sent out ten spies under the command of 'Asim bin Thabit Al-Ansari, the grand-father of 'Asim bin 'Umar Al-Khattab. When they reached (a place called) Al-Hadah between 'Usfan and Mecca, their presence was made known to a sub-tribe of Hudhail called Banu Lihyan. So they sent about one hundred archers after them. The archers traced the footsteps (of the Muslims) till they found the traces of dates which they had eaten at one of their camping places. The archers said, "These dates are of Yathrib (i.e. Medina)," and went on tracing the Muslims' footsteps. When 'Asim and his companions became aware of them, they took refuge in a (high) place. But the enemy encircled them and said, "Come down and surrender. We give you a solemn promise and covenant that we will not kill anyone of you." 'Asim bin Thabit said, "O people! As for myself, I will never get down to be under the protection of an infidel. O Allah! Inform your Prophet about us." So the archers threw their arrows at them and martyred 'Asim. Three of them came down and surrendered to them, accepting their promise and covenant and they were Khubaib, Zaid bin Ad-Dathina and another man. When the archers got hold of them, they untied the strings of the arrow bows and tied their captives with them. The third man said, "This is the first proof of treachery! By Allah, I will not go with you for I follow the example of these." He meant the martyred companions. The archers dragged him and struggled with him (till they martyred him). Then Khubaib and Zaid bin Ad-Dathina were taken away by them and later on they sold them as slaves in Mecca after the event of the Badr battle.
The sons of Al-Harit bin 'Amr bin Naufal bought Khubaib for he was a person who had killed (their father) Al-Hari bin 'Amr on the day (of the battle) of Badr. Khubaib remained imprisoned by them till they decided unanimously to kill him. One day Khubaib borrowed from a daughter of Al-Harith, a razor for shaving his public hair, and she lent it to him. By chance, while she was inattentive, a little son of hers went to him (i.e. Khubaib) and she saw that Khubaib had seated him on his thigh while the razor was in his hand. She was so much terrified that Khubaib noticed her fear and said, "Are you afraid that I will kill him? Never would I do such a thing." Later on (while narrating the story) she said, "By Allah, I had never seen a better captive than Khubaib. By Allah, one day I saw him eating from a bunch of grapes in his hand while he was fettered with iron chains and (at that time) there was no fruit in Mecca." She used to say," It was food Allah had provided Khubaib with."
When they took him to Al-Hil out of Mecca sanctuary to martyr him, Khubaib requested them. "Allow me to offer a two-Rak'at prayer." They allowed him and he prayed two Rakat and then said, "By Allah! Had I not been afraid that you would think I was worried, I would have prayed more." Then he (invoked evil upon them) saying, "O Allah! Count them and kill them one by one, and do not leave anyone of them"' Then he recited: "As I am martyred as a Muslim, I do not care in what way I receive my death for Allah's Sake, for this is for the Cause of Allah. If He wishes, He will bless the cut limbs of my body." Then Abu Sarva, 'Ubqa bin Al-Harith went up to him and killed him. It was Khubaib who set the tradition of praying for any Muslim to be martyred in captivity (before he is executed). The Prophet told his companions of what had happened (to those ten spies) on the same day they were martyred. Some Quraish people, being informed of 'Asim bin Thabit's death, sent some messengers to bring a part of his body so that his death might be known for certain, for he had previously killed one of their leaders (in the battle of Badr). But Allah sent a swarm of wasps to protect the dead body of 'Asim, and they shielded him from the messengers who could not cut anything from his body.