قصہ قتل ابورافع عبداللہ بن ابی الحقیق بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کا نام سلام بن ابی الحقیق ہے اور وہ خیبر میں رہتا تھا اور بعض کہتے ہیں کہ وہ اپنے قلعہ واقع حجاز میں رہتا تھا زہری کا بیان ہے کہ ابورافع کو کعب بن اشرف کے بعد قتل کیا گیا ہے (رمضان 6ھ میں)
راوی: احمد بن عثمان , شریح بن مسلمہ , ابراہیم بن یوسف اپنے والد یوسف بن اسحق
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ حَدَّثَنَا شُرَيْحٌ هُوَ ابْنُ مَسْلَمَةَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی أَبِي رَافِعٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَتِيکٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُتْبَةَ فِي نَاسٍ مَعَهُمْ فَانْطَلَقُوا حَتَّی دَنَوْا مِنْ الْحِصْنِ فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَتِيکٍ امْکُثُوا أَنْتُمْ حَتَّی أَنْطَلِقَ أَنَا فَأَنْظُرَ قَالَ فَتَلَطَّفْتُ أَنْ أَدْخُلَ الْحِصْنَ فَفَقَدُوا حِمَارًا لَهُمْ قَالَ فَخَرَجُوا بِقَبَسٍ يَطْلُبُونَهُ قَالَ فَخَشِيتُ أَنْ أُعْرَفَ قَالَ فَغَطَّيْتُ رَأْسِي وَجَلَسْتُ کَأَنِّي أَقْضِي حَاجَةً ثُمَّ نَادَی صَاحِبُ الْبَابِ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَدْخُلَ فَلْيَدْخُلْ قَبْلَ أَنْ أُغْلِقَهُ فَدَخَلْتُ ثُمَّ اخْتَبَأْتُ فِي مَرْبِطِ حِمَارٍ عِنْدَ بَابِ الْحِصْنِ فَتَعَشَّوْا عِنْدَ أَبِي رَافِعٍ وَتَحَدَّثُوا حَتَّی ذَهَبَتْ سَاعَةٌ مِنْ اللَّيْلِ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَی بُيُوتِهِمْ فَلَمَّا هَدَأَتْ الْأَصْوَاتُ وَلَا أَسْمَعُ حَرَکَةً خَرَجْتُ قَالَ وَرَأَيْتُ صَاحِبَ الْبَابِ حَيْثُ وَضَعَ مِفْتَاحَ الْحِصْنِ فِي کَوَّةٍ فَأَخَذْتُهُ فَفَتَحْتُ بِهِ بَابَ الْحِصْنِ قَالَ قُلْتُ إِنْ نَذِرَ بِي الْقَوْمُ انْطَلَقْتُ عَلَی مَهَلٍ ثُمَّ عَمَدْتُ إِلَی أَبْوَابِ بُيُوتِهِمْ فَغَلَّقْتُهَا عَلَيْهِمْ مِنْ ظَاهِرٍ ثُمَّ صَعِدْتُ إِلَی أَبِي رَافِعٍ فِي سُلَّمٍ فَإِذَا الْبَيْتُ مُظْلِمٌ قَدْ طَفِئَ سِرَاجُهُ فَلَمْ أَدْرِ أَيْنَ الرَّجُلُ فَقُلْتُ يَا أَبَا رَافِعٍ قَالَ مَنْ هَذَا قَالَ فَعَمَدْتُ نَحْوَ الصَّوْتِ فَأَضْرِبُهُ وَصَاحَ فَلَمْ تُغْنِ شَيْئًا قَالَ ثُمَّ جِئْتُ کَأَنِّي أُغِيثُهُ فَقُلْتُ مَا لَکَ يَا أَبَا رَافِعٍ وَغَيَّرْتُ صَوْتِي فَقَالَ أَلَا أُعْجِبُکَ لِأُمِّکَ الْوَيْلُ دَخَلَ عَلَيَّ رَجُلٌ فَضَرَبَنِي بِالسَّيْفِ قَالَ فَعَمَدْتُ لَهُ أَيْضًا فَأَضْرِبُهُ أُخْرَی فَلَمْ تُغْنِ شَيْئًا فَصَاحَ وَقَامَ أَهْلُهُ قَالَ ثُمَّ جِئْتُ وَغَيَّرْتُ صَوْتِي کَهَيْئَةِ الْمُغِيثِ فَإِذَا هُوَ مُسْتَلْقٍ عَلَی ظَهْرِهِ فَأَضَعُ السَّيْفَ فِي بَطْنِهِ ثُمَّ أَنْکَفِئُ عَلَيْهِ حَتَّی سَمِعْتُ صَوْتَ الْعَظْمِ ثُمَّ خَرَجْتُ دَهِشًا حَتَّی أَتَيْتُ السُّلَّمَ أُرِيدُ أَنْ أَنْزِلَ فَأَسْقُطُ مِنْهُ فَانْخَلَعَتْ رِجْلِي فَعَصَبْتُهَا ثُمَّ أَتَيْتُ أَصْحَابِي أَحْجُلُ فَقُلْتُ انْطَلِقُوا فَبَشِّرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنِّي لَا أَبْرَحُ حَتَّی أَسْمَعَ النَّاعِيَةَ فَلَمَّا کَانَ فِي وَجْهِ الصُّبْحِ صَعِدَ النَّاعِيَةُ فَقَالَ أَنْعَی أَبَا رَافِعٍ قَالَ فَقُمْتُ أَمْشِي مَا بِي قَلَبَةٌ فَأَدْرَکْتُ أَصْحَابِي قَبْلَ أَنْ يَأْتُوا النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَشَّرْتُهُ
احمد بن عثمان، شریح بن مسلمہ، ابراہیم بن یوسف اپنے والد یوسف بن اسحاق سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت براء بن عازب کو کہتے ہوئے سنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابورافع کے مارنے کے لئے عبداللہ بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبداللہ بن عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور کئی آدمیوں کو روانہ فرمایا یہ لوگ جب اس قلعہ کے قریب پہنچے تو ابن عتیک نے ساتھیوں سے کہا کہ تم سب یہیں ٹھہرو میں جا کر موقعہ دیکھتا ہوں ابن عتیک کہتے ہیں کہ میں گیا اور دربان کو ملنے کی تدبیر کر رہا تھا کہ اتنے میں قلعہ والوں کا گدھا گم ہوگیا اور وہ اسے روشنی لے کر تلاش کرنے نکلے میں ڈرا کہ کہیں مجھ کو پہچان نہ لیں لہذا میں نے اپنا سر چھپا لیا اور اس طرح بیٹھ گیا جس طرح کوئی رفع حاجت کے لئے بیٹھتا ہے اتنے میں دربان نے آواز دی کہ دروازہ بند ہوتا ہے جو اندر آنا چاہے آجائے چنانچہ میں جلدی سے اندر داخل ہوگیا اور گدھوں کے باندھنے کی جگہ چھپ گیا قلعہ والوں نے ابورافع کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر کچھ رات گئے تک باتیں کرتے رہے جب سب چلے گئے اور ہر طرف سناٹا چھا گیا میں نکلا اور دربان نے جہاں دروازہ کی چابی رکھی تھی اٹھالی اور قلعہ کا دروازہ کھول دیا تاکہ آسانی سے بھاگ سکوں اس کے بعد میں قلعہ میں جو مکانات تھے ان کے پاس گیا اور باہر سے سب کی زنجیر لگا دی اس کے بعد میں ابورافع کی سیڑھیوں پر چڑھا کیا دیکھتا ہوں کہ کمرے میں اندھیرا ہے مجھے اس کا مقام معلوم نہ ہو سکا آخر میں نے ابورافع کہہ کر پکارا اس نے پوچھا کون ہے؟ میں نے بڑھ کر آواز پر تلوار کا ہاتھ مارا وہ چیخا مگر وار اوچھا پڑا میں تھوڑی دیر ٹھہر کر قریب گیا اور دریافت کیا کہ اے ابورافع کیا بات ہے! اس نے سمجھا کہ شاید میرا کوئی آدمی میری مدد کو آیا ہے اس لئے اس نے کہا : ارے تیری ماں مرے کسی نے میرے اوپر تلوار سے وار کیا ہے۔ یہ سنتے ہی میں نے پھر وار کیا مگر ہلکا لگا اس کی بیوی بھاگی اور وہ چیخا میں نے پھر آواز بدل دی اور مددگار کی حیثیت سے اس کے قریب گیا وہ چت پڑا تھا میں نے تلوار پیٹ پر رکھ کر زور سے دبا دی اب ہڈیاں کو کھنے کی آواز میں نے سنی اب میں اس کا کام تمام کرکے ڈرتا ہوا گھبراہٹ میں چاہتا تھا کہ نیچے اتروں مگر جلدی میں گر پڑا اور پاؤں کا جوڑ نکل گیا میں نے پیر کو کپڑے سے باندھ لیا اور پھر آہستہ آہستہ چلتا ہوا اپنے ساتھیوں سے آکر کہا کہ تم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے قتل کی خبر سناؤ میں اس کی موت کی یقینی خبر سننے تک یہیں رہتا ہوں آخر صبح کے قریب ایک شخص نے دیوار پر چڑھ کر کہا کہ لوگو! میں ابورافع کی موت کی خبر سناتا ہوں ابن عتیک کہتے ہیں کہ میں چلنے کے لئے اٹھا مگر خوشی کی وجہ سے کوئی تکلیف محسوس نہیں کی میں تیزی سے چلا اور ساتھیوں کے رسول اللہ کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی ان کو پکڑ لیا اور پھر خود ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوشخبری سنائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پنڈلی پر ہاتھ پھیرا اور میں بالکل تندرست ہوگیا۔
Narrated Al-Bara:
Allah's Apostle sent 'Abdullah bin 'Atik and 'Abdullah bin 'Utba with a group of men to Abu Rafi (to kill him). They proceeded till they approached his castle, whereupon 'Abdullah bin Atik said to them, "Wait (here), and in the meantime I will go and see." 'Abdullah said later on, "I played a trick in order to enter the castle. By chance, they lost a donkey of theirs and came out carrying a flaming light to search for it. I was afraid that they would recognize me, so I covered my head and legs and pretended to answer the call to nature. The gatekeeper called, 'Whoever wants to come in, should come in before I close the gate.' So I went in and hid myself in a stall of a donkey near the gate of the castle. They took their supper with Abu Rafi and had a chat till late at night. Then they went back to their homes. When the voices vanished and I no longer detected any movement, I came out. I had seen where the gate-keeper had kept the key of the castle in a hole in the wall. I took it and unlocked the gate of the castle, saying to myself, 'If these people should notice me, I will run away easily.' Then I locked all the doors of their houses from outside while they were inside, and ascended to Abu Rafi by a staircase. I saw the house in complete darkness with its light off, and I could not know where the man was. So I called, 'O Abu Rafi!' He replied, 'Who is it?' I proceeded towards the voice and hit him. He cried loudly but my blow was futile. Then I came to him, pretending to help him, saying with a different tone of my voice, ' What is wrong with you, O Abu Rafi?' He said, 'Are you not surprised? Woe on your mother! A man has come to me and hit me with a sword!' So again I aimed at him and hit him, but the blow proved futile again, and on that Abu Rafi cried loudly and his wife got up. I came again and changed my voice as if I were a helper, and found Abu Rafi lying straight on his back, so I drove the sword into his belly and bent on it till I heard the sound of a bone break. Then I came out, filled with astonishment and went to the staircase to descend, but I fell down from it and got my leg dislocated. I bandaged it and went to my companions limping. I said (to them), 'Go and tell Allah's Apostle of this good news, but I will not leave (this place) till I hear the news of his (i.e. Abu Rafi's) death.' When dawn broke, an announcer of death got over the wall and announced, 'I convey to you the news of Abu Rafi's death.' I got up and proceeded without feeling any pain till I caught up with my companions before they reached the Prophet to whom I conveyed the good news."