پگڑی کے شملہ کا مسئلہ
راوی:
وعن عبد الرحمن بن عوف قال : عممني رسول الله صلى الله عليه وسلم فسدلها بين يدي ومن خلفي . رواه أبو داود
اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو عمامہ بندھوایا تو اس کا شملہ میرے آگے اور میرے پیچھے (دونوں طرف ) لٹکایا ۔" (ابوداؤد )
تشریح
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پگڑی کے دونوں سروں کا شملہ چھوڑ کر ایک کو سینہ اور دوسرے کو پیٹھ پر لٹکایا ۔
واضح رہے کہ عمامہ باندھنا سنت ہے اور اس کی فضیلت میں بہت زیادہ حدیثیں منقول ہیں، بلکہ ایک روایت میں جو اگرچہ ضعیف ہے یہاں تک منقول ہے کہ عمامہ باندھ کر پڑھی جانے والی دو رکعتیں بغیر عمامہ کے پڑھی جانے والی ستر رکعتوں سے افضل ہیں ۔
نیز یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ عمامہ میں شملہ چھوڑنا افضل ہے لیکن دائمی طور پر نہیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی تو شملہ چھوڑتے تھے اور کبھی نہیں چھوڑتے تھے، اسی طرح بعض دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمامہ کا شملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن سے نیچے تک لٹکا ہوتا تھا اور بعض دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ عمامہ کا ایک سرا عمامہ ہی میں اڑس دیتے تھے اور دوسرا چھوڑ دیتے تھے نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمامہ کا شملہ اکثر اوقات میں پیٹھ پر پڑا ہوتا تھا اور کبھی کبھی دائیں طرف بھی لٹکا لیتے تھے اور کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ عمامہ کے دونوں سروں کا شملہ چھوڑ کر دونوں مونڈھوں کے درمیان یعنی ایک کو سینے پر اور دوسرے کو پیٹھ پر لٹکا لیتے تھے لیکن بائیں طرف لٹکانا چونکہ ثابت نہیں ہے اس لئے بدعت ہے اور کنز میں لکھا ہے کہ شملہ کو مونڈھوں کے درمیان چھوڑنا مستحب ہے ۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے شملہ کی لمبائی کم سے کم ایک بالشت اور زیادہ سے زیادہ ہاتھ بھر ہونی چاہئے اس سے زائد لمبا شملہ چھوڑنا بدعت ہے اور اس کے خلاف ورزی ہے جس کے ذریعہ اسبال و اسرف سے منع کیا گیا ہے چنانچہ مقررہ حد سے زائد لمبائی اگر غرور و تکبر کے طور پر ہو گی تو وہ حرام شمار ہو گی ورنہ مکروہ اور خلاف سنت ! نیز محمدثین نے یہ لکھا ہے کہ شملہ چھوڑنے کو صرف نماز کے وقت کے ساتھ مختص کرنا بھی سنت کے خلاف ہے ۔
یہ ملحوظ رہے کہ شملہ چھوڑنا فقہی اعتبار سے مستحب ہے جس کا تعلق سنت زائدہ سے ہے سنت ہدی سے نہیں اس لئے اس (شملہ چھوڑنے ) کے ترک میں کوئی گناہ یا برائی نہیں ہے اگرچہ اس کو اختیار کرنے میں ثواب و فضیلت ہے، جن حضرات نے شملہ چھوڑنے کو سنت مؤ کدہ کہا ہے ان کا یہ قول ہے تحقیق و روایت کے خلاف ہے ۔