صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ غزوات کا بیان ۔ حدیث 1273

قصہ جنگ احد فرمایا اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران میں کہ اے ہمارے رسول یاد کیجیے جب آپ صبح کے وقت اپنے گھر سے نکل کر مسلمانوں کی لڑائی کی جگہ بیٹھنے لگے اور اللہ سننے والا اور جاننے والاہے پھر دوسری جگہ اسی سورت میں فرمایا کہ مت سست ہو اور مت غمگین ہو تم ہی غالب رہو گے اگر ایمان والے ہو اگر تم زخمی ہوئے تو ان کو بھی زخم لگے ہیں اور یہ توزمانہ کی الٹ پھیر ہے جو ہم باری باری لوگوں پر لاتے رہتے ہیں تاکہ اللہ تعالی مومنوں کو ممتاز کردے اور تم میں سے بعض کو درجہ شہادت دے اور اللہ تعالی ظالموں کودوست نہیں رکھتا اور اللہ تعالی ایمانداروں کوصاف ستھرا کرے گا اور کافروں کو مٹا دے گا کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اللہ نے ابھی یہ نہیں بتایا کہ تم میں کون لڑنے والے اور کون صبر کرنے والے ہیں اور تم تو اس فتح سے پہلے موت کی آرزو کرتے تھے اب تو موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا پھر دوسری جگہ فرمایا کہ اللہ تعالی نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا جب کہ تم اللہ تعالی کے حکم سے ان کو مارتے تھے یہاں تک کہ جب تم نے نامردی کی اور کام میں جھگڑا ڈالا اور اپنی سہولت کی چیزیں دیکھ لینے کے بعد تم نے نافرمانی کی بعض تم میں سے دنیا کو چاہتے تھے اور بعض آخرت کو چاہتے تھے پھر تم کو ان سے ہٹا دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے اور وہ تم کو معاف کرچکا ہے کیونکہ اللہ ایمان والوں پر مہربان ہے جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے گئے یعنی شہید ہوئے ان کو مردہ مت خیال کرو بلکہ وہ زندہ ہیں آخر آیت تک۔

راوی: حسان بن حسان , محمد بن طلحہ , حمید , انس

أَخْبَرَنَا حَسَّانُ بْنُ حَسَّانَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ عَمَّهُ غَابَ عَنْ بَدْرٍ فَقَالَ غِبْتُ عَنْ أَوَّلِ قِتَالِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَئِنْ أَشْهَدَنِي اللَّهُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَرَيَنَّ اللَّهُ مَا أُجِدُّ فَلَقِيَ يَوْمَ أُحُدٍ فَهُزِمَ النَّاسُ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعْتَذِرُ إِلَيْکَ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلَائِ يَعْنِي الْمُسْلِمِينَ وَأَبْرَأُ إِلَيْکَ مِمَّا جَائَ بِهِ الْمُشْرِکُونَ فَتَقَدَّمَ بِسَيْفِهِ فَلَقِيَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ فَقَالَ أَيْنَ يَا سَعْدُ إِنِّي أَجِدُ رِيحَ الْجَنَّةِ دُونَ أُحُدٍ فَمَضَی فَقُتِلَ فَمَا عُرِفَ حَتَّی عَرَفَتْهُ أُخْتُهُ بِشَامَةٍ أَوْ بِبَنَانِهِ وَبِهِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ طَعْنَةٍ وَضَرْبَةٍ وَرَمْيَةٍ بِسَهْمٍ

حسان بن حسان، محمد بن طلحہ، حمید، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انس کے چچا انس بن نضر بدر کی لڑائی میں غیر حاضر تھے کہنے لگے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلی جنگ میں شریک نہیں ہو سکا خیر اب اگر اللہ نے مجھ کو لڑائی میں آنحضرت کے ساتھ شریک ہونے کا موقعہ دیا تو اللہ دیکھ لے گا کہ میں کیسی کوشش کرتا ہوں جب احد کا دن آیا اور مسلمان بھاگنے لگے تو انس بن نضیر نے کہا یا اللہ میں تیری بارگاہ میں عذر کرتا ہوں جو ان مسلمانوں نے کیا اور مشرکین نے جو کچھ کیا اس سے بیزار ہوں پھر تلوار لے کر میدان میں بڑھے راستہ میں سعد بن معاذ ملے (جو بھاگے آ رہے تھے) انس نے کہا کیوں سعد کہاں بھاگے جاتے ہو؟ میں تو احد پہاڑ کے پیچھے سے جنت کی خوشبو سونگھ رہا ہوں غرض انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس قدر لڑے کہ شہید ہو گئے (زخموں کی کثرت سے) ان کی لاش پہچانی نہیں جاتی تھی ان کی بہن نے ایک تل اور پاؤں کی انگلی کے نشان سے ان کو پہچانا اسی (80) سے زیادہ زخم تلوار وغیرہ کے جسم پر لگے تھے۔

یہ حدیث شیئر کریں