صبر و استقلال کے بیان میں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تم بھاگے جا رہے تھے اور کسی کی طرف مڑ کر نہ دیکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو پیچھے کی طرف بلا رہے تھے لیکن تم مڑ کر بھی نہیں دیکھتے تھے (آخر میں نے بھی تم کو رنجیدہ کیا) اور غم پر غم پہنچے اور اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ جب تم سے کوئی اچھی چیز نکل جائے یا مصیبت آئے تو رنج نہ کرو بلکہ صبر سے کام لو اور اللہ تمہارے کاموں کی خبر رکھتا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں اس آیت میں تصعدون کے معنی تذھبون ہیں یعنی چلے جا رہے تھے وصعد فوق البیت گھر کے اوپر چڑھ گیا۔
راوی: عمرو بن خالد , زہیر , ابواسحق , براء بن عازب
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی الرَّجَّالَةِ يَوْمَ أُحُدٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَيْرٍ وَأَقْبَلُوا مُنْهَزِمِينَ فَذَاکَ إِذْ يَدْعُوهُمْ الرَّسُولُ فِي أُخْرَاهُمْ
عمرو بن خالد، زہیر، ابواسحاق ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن پیدل لشکر کا سردار حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مقرر فرمایا چنانچہ تمام لشکر مدینہ کی طرف بھاگ کھڑا ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو پکار رہے تھے چنانچہ اسی سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی ( يَدْعُوهُمْ الرَّسُولُ فِي أُخْرَاهُمْ)
Narrated Al-Bara' bin 'Azib:
The Prophet appointed Abdullah bin Jubair as the commander of the cavalry archers on the day of the battle of Uhud. Then they returned defeated, and that what is referred to by Allah's Statement:– "And the Apostle (Muhammad) in your rear was calling you." (3.153)