شہادت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا بیان۔
راوی: ابوجعفر , محمد بن عبداللہ بن مبارک , حجین ابن مثنیٰ , عبدالعزیز بن عبداللہ بن ابی مسلمہ , عبداللہ بن فضیل , سلیمان بن یسار , جعفر بن عمرو بن امیہ ضمری
حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ فَلَمَّا قَدِمْنَا حِمْصَ قَالَ لِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَدِيٍّ هَلْ لَکَ فِي وَحْشِيٍّ نَسْأَلُهُ عَنْ قَتْلِ حَمْزَةَ قُلْتُ نَعَمْ وَکَانَ وَحْشِيٌّ يَسْکُنُ حِمْصَ فَسَأَلْنَا عَنْهُ فَقِيلَ لَنَا هُوَ ذَاکَ فِي ظِلِّ قَصْرِهِ کَأَنَّهُ حَمِيتٌ قَالَ فَجِئْنَا حَتَّی وَقَفْنَا عَلَيْهِ بِيَسِيرٍ فَسَلَّمْنَا فَرَدَّ السَّلَامَ قَالَ وَعُبَيْدُ اللَّهِ مُعْتَجِرٌ بِعِمَامَتِهِ مَا يَرَی وَحْشِيٌّ إِلَّا عَيْنَيْهِ وَرِجْلَيْهِ فَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ يَا وَحْشِيُّ أَتَعْرِفُنِي قَالَ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ثُمَّ قَالَ لَا وَاللَّهِ إِلَّا أَنِّي أَعْلَمُ أَنَّ عَدِيَّ بْنَ الْخِيَارِ تَزَوَّجَ امْرَأَةً يُقَالُ لَهَا أُمُّ قِتَالٍ بِنْتُ أَبِي الْعِيصِ فَوَلَدَتْ لَهُ غُلَامًا بِمَکَّةَ فَکُنْتُ أَسْتَرْضِعُ لَهُ فَحَمَلْتُ ذَلِکَ الْغُلَامَ مَعَ أُمِّهِ فَنَاوَلْتُهَا إِيَّاهُ فَلَکَأَنِّي نَظَرْتُ إِلَی قَدَمَيْکَ قَالَ فَکَشَفَ عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ قَالَ أَلَا تُخْبِرُنَا بِقَتْلِ حَمْزَةَ قَالَ نَعَمْ إِنَّ حَمْزَةَ قَتَلَ طُعَيْمَةَ بْنَ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ بِبَدْرٍ فَقَالَ لِي مَوْلَايَ جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ إِنْ قَتَلْتَ حَمْزَةَ بِعَمِّي فَأَنْتَ حُرٌّ قَالَ فَلَمَّا أَنْ خَرَجَ النَّاسُ عَامَ عَيْنَيْنِ وَعَيْنَيْنِ جَبَلٌ بِحِيَالِ أُحُدٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ وَادٍ خَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ إِلَی الْقِتَالِ فَلَمَّا أَنْ اصْطَفُّوا لِلْقِتَالِ خَرَجَ سِبَاعٌ فَقَالَ هَلْ مِنْ مُبَارِزٍ قَالَ فَخَرَجَ إِلَيْهِ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ يَا سِبَاعُ يَا ابْنَ أُمِّ أَنْمَارٍ مُقَطِّعَةِ الْبُظُورِ أَتُحَادُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثُمَّ شَدَّ عَلَيْهِ فَکَانَ کَأَمْسِ الذَّاهِبِ قَالَ وَکَمَنْتُ لِحَمْزَةَ تَحْتَ صَخْرَةٍ فَلَمَّا دَنَا مِنِّي رَمَيْتُهُ بِحَرْبَتِي فَأَضَعُهَا فِي ثُنَّتِهِ حَتَّی خَرَجَتْ مِنْ بَيْنِ وَرِکَيْهِ قَالَ فَکَانَ ذَاکَ الْعَهْدَ بِهِ فَلَمَّا رَجَعَ النَّاسُ رَجَعْتُ مَعَهُمْ فَأَقَمْتُ بِمَکَّةَ حَتَّی فَشَا فِيهَا الْإِسْلَامُ ثُمَّ خَرَجْتُ إِلَی الطَّائِفِ فَأَرْسَلُوا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا فَقِيلَ لِي إِنَّهُ لَا يَهِيجُ الرُّسُلَ قَالَ فَخَرَجْتُ مَعَهُمْ حَتَّی قَدِمْتُ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَآنِي قَالَ آنْتَ وَحْشِيٌّ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ أَنْتَ قَتَلْتَ حَمْزَةَ قُلْتُ قَدْ کَانَ مِنْ الْأَمْرِ مَا بَلَغَکَ قَالَ فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُغَيِّبَ وَجْهَکَ عَنِّي قَالَ فَخَرَجْتُ فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ مُسَيْلِمَةُ الْکَذَّابُ قُلْتُ لَأَخْرُجَنَّ إِلَی مُسَيْلِمَةَ لَعَلِّي أَقْتُلُهُ فَأُکَافِئَ بِهِ حَمْزَةَ قَالَ فَخَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ فَکَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا کَانَ قَالَ فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِي ثَلْمَةِ جِدَارٍ کَأَنَّهُ جَمَلٌ أَوْرَقُ ثَائِرُ الرَّأْسِ قَالَ فَرَمَيْتُهُ بِحَرْبَتِي فَأَضَعُهَا بَيْنَ ثَدْيَيْهِ حَتَّی خَرَجَتْ مِنْ بَيْنِ کَتِفَيْهِ قَالَ وَوَثَبَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَضَرَبَهُ بِالسَّيْفِ عَلَی هَامَتِهِ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْفَضْلِ فَأَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ فَقَالَتْ جَارِيَةٌ عَلَی ظَهْرِ بَيْتٍ وَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَتَلَهُ الْعَبْدُ الْأَسْوَدُ
ابوجعفر، محمد بن عبداللہ بن مبارک، حجین ابن مثنیٰ، عبدالعزیز بن عبداللہ بن ابی مسلمہ، عبداللہ بن فضیل، سلیمان بن یسار، جعفر بن عمرو بن امیہ ضمری سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں عبیداللہ بن عدی بن خیار کے ساتھ سفر کے لئے نکلا تو جب ہم لوگ حمص پہنچے تو عبیداللہ بن عدی نے کہا کہ چلو وحشی بن حرب سے مل کر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل کا حال پوچھیں میں نے کہا چلو وحشی حمص ہی میں رہتا تھا چنانچہ ہم نے لوگوں سے پتہ معلوم کیا تو بتایا گیا کہ دیکھو! وہ اپنے مکان کے سایہ کے نیچے مشک کی طرح پھولا ہوا بیٹھا ہے جعفر کہتے ہیں کہ ہم وحشی کے قریب گئے اور سلام کیا اس نے سلام کا جواب دیا اس وقت عبیداللہ اپنا عمامہ سر پر اس طرح لپیٹے ہوئے تھے کہ صرف آنکھیں نظر آرہی تھیں وحشی کو اس سے زیادہ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا کہ وہ ان کی آنکھیں اور پیر دیکھ رہا تھا آخر عبیداللہ نے پوچھا وحشی مجھے پہچانتے ہو؟ وحشی نے ان کو دیکھا اور کہا اللہ کی قسم! میں اتنا جانتا ہوں کہ عدی بن خیار نے ایک عورت ام قتال بنت ابی العیص سے شادی کی تھی ام قتال کے مکہ میں جب ایک لڑکا پیدا ہوا تو میں اس بچہ کے لئے ان کو تلاش کر رہا تھا کہ جب اچانک اس بچہ کو اس کی ماں کے پاس لے گیا اور وہ بچہ اس کو دے دیا میں نے اس کے دونوں پیر دیکھے تھے گویا اب بھی میں اس کے پاؤں دیکھ رہا ہوں جعفر کہتے ہیں کہ عبیداللہ نے منہ پر سے پردہ ہٹادیا اور وحشی سے کہا کہ ذرا حمزہ کے قتل کا حال بیان کرو وحشی نے کہا بات یہ ہے کہ بدر کے دن حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے طعیمہ بن عدی بن خیار کو مار ڈالا تھا۔ جبیر بن مطعم نے جو کہ میرے مالک تھے مجھ سے یہ کہا کہ اگر تو حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میرے چچا طعیمہ کے بدلے میں مار ڈالے تو تو آزاد ہے وحشی نے بیان کیا کہ جب لوگ حنین کی لڑائی کے سال نکلے جو احد کے قریب ایک پہاڑ کا نام ہے احد اور اس کے درمیان ایک نالہ ہے اس وقت میں بھی لڑنے والوں کے ساتھ نکلا جب لڑائی کے لئے صفیں درست ہو چکیں تو سباع بن عبدالعزیٰ نے آگے نکل کر کہا کیا کوئی لڑنے والا ہے حمزہ بن عبدالمطلب نے اس کے بالمقابل پہنچ کر کہا او سباع! ام نمارہ کے بیٹے جو بچوں کا ختنہ کیا کرتی تھی کیا تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا ہے پھر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سباع کو گزرے ہوئے دن کی طرح بنا دیا وحشی نے کہا پھر میں قتل حمزہ کی فکر میں ایک پتھر کی آڑ میں بیٹھ گیا جب حمزہ میرے قریب آئے میں نے ان کو اپنا ہتھیار پھینک کر مار دیا اور آخر میرا بھالا ان کے زیر ناف ایسا لگا کہ وہ سرین سے پار ہوگیا وحشی نے کہا یہ ان کا آخری وقت تھا جب اہل قریش مکہ میں واپس آئے تو میں بھی ان کے ہمراہ مکہ آ گیا جب فتح مکہ کے بعد مکہ میں اسلام پھیل گیا تو میں طائف میں جا کر مقیم ہوگیا اس کے بعدطائف والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قاصد بھیجے اور مجھ سے کہا کہ وہ قاصدوں کو نہیں ستاتے تو پھر میں بحیثیت قاصد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو دیکھ کر کہا کیا تم ہی وحشی ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تم ہی نے شہید کیا تھا؟ میں نے کہا جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو سب کیفیت معلوم ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اپنا منہ مجھ سے چھپا سکتے ہو میں یہ بات سن کر باہر آ گیا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب مسیلمہ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو میں نے سوچا کہ مسلمانوں کے ساتھ مسیلمہ کو مارنے جاؤں گا شاید اس کو مار کر حمزہ کے قتل کا کفارہ ہو سکے میں مسلمانوں کے ساتھ مسیلمہ کے مقابلہ پر نکلا مسیلمہ کے لوگوں نے جو کچھ کیا وہ میں دیکھ رہا تھا اس کے بعد میں کیا دیکھتا ہوں کہ مسیلمہ ایک دیوار کی آڑ میں کھڑا ہے سر پر نشان اور اونٹ کا سا رنگ ہے میں نے وہی حربہ جو حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے استعمال کیا تھا نکالا اور اس کے مار دیا جو دونوں چھاتیوں کے درمیان سے ہوتا ہوا دونوں مونڈھوں کے درمیان سے پار نکل گیا۔ اتنے میں ایک انصاری کود کر اس کی طرف گیا اور میں نے اس کی کھوپڑی پر ایک تلوار بھی لگائی عبداللہ بن فضیل اس حدیث کے راوی بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے سلیمان بن یسار نے ان کو عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ جب مسیلمہ مارا گیا تو ایک چھوکری مکان کی چھت پر چڑھ کر کہنے لگی ہائے امیرالمومنین! (مسیلمہ) کو ایک کالے غلام نے مار ڈالا۔
Narrated Jafar bin 'Amr bin Umaiya:
I went out with 'Ubaidullah bin 'Adi Al-Khaiyar. When we reached Hims (i.e. a town in Syria), 'Ubaidullah bin 'Adi said (to me), "Would you like to see Wahshi so that we may ask him about the killing of Hamza?" I replied, "Yes." Wahshi used to live in Hims. We enquired about him and somebody said to us, "He is that in the shade of his palace, as if he were a full water skin." So we went up to him, and when we were at a short distance from him, we greeted him and he greeted us in return. 'Ubaidullah was wearing his turban and Wahshi could not see except his eyes and feet. 'Ubaidullah said, "O Wahshi! Do you know me?" Wahshi looked at him and then said, "No, by Allah! But I know that 'Adi bin Al-Khiyar married a woman called Um Qital, the daughter of Abu Al-Is, and she delivered a boy for him at Mecca, and I looked for a wet nurse for that child. (Once) I carried that child along with his mother and then I handed him over to her, and your feet resemble that child's feet." Then 'Ubaidullah uncovered his face and said (to Wahshi), "Will you tell us (the story of) the killing of Hamza?" Wahshi replied "Yes, Hamza killed Tuaima bin 'Adi bin Al-Khaiyar at Badr (battle) so my master, Jubair bin Mut'im said to me, 'If you kill Hamza in revenge for my uncle, then you will be set free." When the people set out (for the battle of Uhud) in the year of 'Ainain ..'Ainain is a mountain near the mountain of Uhud, and between it and Uhud there is a valley.. I went out with the people for the battle. When the army aligned for the fight, Siba' came out and said, 'Is there any (Muslim) to accept my challenge to a duel?' Hamza bin 'Abdul Muttalib came out and said, 'O Siba'. O Ibn Um Anmar, the one who circumcises other ladies! Do you challenge Allah and His Apostle?' Then Hamza attacked and killed him, causing him to be non-extant like the bygone yesterday. I hid myself under a rock, and when he (i.e. Hamza) came near me, I threw my spear at him, driving it into his umbilicus so that it came out through his buttocks, causing him to die. When all the people returned to Mecca, I too returned with them. I stayed in (Mecca) till Islam spread in it (i.e. Mecca). Then I left for Taif, and when the people (of Taif) sent their messengers to Allah's Apostle, I was told that the Prophet did not harm the messengers; So I too went out with them till I reached Allah's Apostle. When he saw me, he said, 'Are you Wahshi?' I said, 'Yes.' He said, 'Was it you who killed Hamza?' I replied, 'What happened is what you have been told of.' He said, 'Can you hide your face from me?' So I went out when Allah's Apostle died, and Musailamah Al-Kadhdhab appeared (claiming to be a prophet). I said, 'I will go out to Musailamah so that I may kill him, and make amends for killing Hamza. So I went out with the people (to fight Musailamah and his followers) and then famous events took place concerning that battle. Suddenly I saw a man (i.e. Musailamah) standing near a gap in a wall. He looked like an ash-colored camel and his hair was dishevelled. So I threw my spear at him, driving it into his chest in between his breasts till it passed out through his shoulders, and then an Ansari man attacked him and struck him on the head with a sword. 'Abdullah bin 'Umar said, 'A slave girl on the roof of a house said: Alas! The chief of the believers (i.e. Musailamah) has been killed by a black slave."