ذات الجنب کا علاج
راوی:
وعن أم قيس قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم على م تدغرن أولادكن بهذا العلاق ؟ عليكن بهذا العود الهندي فإن فيه سبعة أشفية منها ذات الجنب يسعط من العذرة ويلد من ذات الجنب . ( متفق عليه )
اور حضرت ام قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے بچوں کے حلق کا علاج اس طرح دبا کر کیوں کرتی ہو بلکہ تمہیں ان کا علاج عود ہندی یعنی کوٹ کے ذریعہ کرنا چاہئے کیونکہ عود ہندی میں سات بیماریوں کی شفا ہے جن میں ایک ذات الجنب ہے ۔عذرہ کی صورت میں توسط کیا جائے (یعنی عذرہ بیماری کو دور کرنے کے لئے عود ہندی کو پانی میں گھول کر ناک میں ٹپکایا جائے ) اور ذات الجنب کی صورت میں لدود کیا جائے یعنی ذات الجنب کی بیماری کو دور کرنے کے لئے عود ہندی کو پانی میں گھول کر باچھ کی طرف سے منہ میں ٹپکایا جائے ۔" (بخاری ومسلم )
تشریح
" تدغرن " وغر کا مطلب ہے عذرہ بیماری میں حلق کو انگلی کے ذریعہ دبانا، جیسا کہ جب بچوں کو حلق کی بیماری ہوتی ہے تو عورتیں ان کے حلق میں انگلی ڈال کر ورم کو دباتی ہیں اور کوے کو اوپر اٹھا دیتی ہیں، چنانچہ اس بارے میں اس سے پہلے کی حدیث میں بھی گزر چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تکلیف دہ طریقہ علاج سے منع فرمایا ہے، اور یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطریق انکار فرمایا کہ تم اپنے بچوں کے حلق کو انگلی سے کیوں دباتی ہو، یعنی اس طریقہ علاج سے اجتناب کرو ۔ اعلق کے معنی بھی وہی ہیں جو وغر کا مطلب بیان کیا گیا ہے ، بعض روایت میں علاق کے بجائے اعلاق مذکور ہے ، لیکن علماء نے لکھا ہے کہ یہی روایت اولی اور اصوب ہے ، ویسے اعلاق کے بھی وہی معنی ہیں جو علق کے ہیں ، حاصل یہ کہ عورتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ عذرہ کی بیماری میں انگلی کے ذریعہ حلق کو دبانے کا طریقہ علاج اختیار کیا جائے، بلکہ عود ہندی کے ذریعہ اس کا علاج کیا جائے جس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو پانی میں گھول کر بچے کی ناک میں ٹپکایا جائے ۔
حدیث میں " عود ہندی " کا ذکر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ پچھلی حدیث میں قسط بحری سے مراد یہی عود ہندی ہے تاہم یہ بھی احتمال ہے کہ " قسط " ہندی کو عود ہندی فرمایا گیا ہو ، جیسا کہ بعض حضرات نے اس کی وضاحت " عود ہندی " کی ہے اور یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے کہ فائدہ مند تو دونوں ہیں لیکن " قسط بحری " زیادہ فائدہ مند ہے ۔
" ذات الجنب " ایک بیماری ہے اس کی صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ سینے میں ورم ہو جاتا ہے اور یہ اگرچہ عضلات میں پیدا ہوتا ہے مگر پھر باطن سے ظاہر میں آ جاتا ہے اور یہ صورت خطرناک ہے اور اس کا شمار مہلک امراض میں ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذات الجنب کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ریاح غلیظہ کے رک جانے کی وجہ سے پہلو میں ایک درد ہوتا ہے یہاں حدیث میں جس ذات الجنب کا ذکر ہے اس سے مراد یہی دوسری صورت ہے کیونکہ " عود ہندی " ریاحی امراض کی دوا ہے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد گرامی میں سات بیماریوں کا ذکر فرمایا لیکن نام صرف دو بیماریوں کا لیا ، باقی پانچ کے بارے میں سکوت فرمایا کیونکہ اس موقع پر ان پانچوں کی وضاحت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ پانچ بیماریاں ایسی ہوں گی جو عرب میں مشہور رہی ہو گی اور ان کے بارے میں لوگ خود جانتے ہوں گے اور چونکہ ان دونوں بیماریوں کے بارے میں لوگوں کا علم محدود ہو گا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دو بیماریوں کا نام لیا ، لیکن حدیث میں " سات بیماریوں " کا ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ قسط بس سات بیماریوں کے کام میں آنے والی دوا ہے سات سے زیادہ کسی اور بیماری کے لئے فائدہ مند نہیں ہے ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دوا کا فائدہ بہت وسیع ہے اور بہت سی بیماریوں میں استعمال کی جاتی ہے جن میں سے کچھ بیماریوں وہ ہیں جن کو پہلے بیان کیا چکا ہے ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ سات بیماریوں کے لئے یہ فائدہ مند ہوگی اس لئے اس کو یہاں ذکر کیا گیا ، علاوہ ازیں بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ " سات" سے مراد مخصوص عدد نہیں ہے بلکہ کثرت مراد ہے چنانچہ اہل عرب کے کلام میں بسا اوقات سات کا اطلاق کثرت پر ہوتا ہے ۔