صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ غزوات کا بیان ۔ حدیث 1448

جنگ خیبر کا بیان (جو سن ۷ھ میں ہوئی)

راوی: یحیی بن بکیر , لیث , عقیل , ابن شہاب , عروہ , عائشہ

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ بُکَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَی أَبِي بَکْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَکٍ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ إِنَّمَا يَأْکُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِهَا الَّتِي کَانَ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَبَی أَبُو بَکْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَی فَاطِمَةَ مِنْهَا شَيْئًا فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَی أَبِي بَکْرٍ فِي ذَلِکَ فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُکَلِّمْهُ حَتَّی تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَکْرٍ وَصَلَّی عَلَيْهَا وَکَانَ لِعَلِيٍّ مِنْ النَّاسِ وَجْهٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ اسْتَنْکَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ النَّاسِ فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أَبِي بَکْرٍ وَمُبَايَعَتَهُ وَلَمْ يَکُنْ يُبَايِعُ تِلْکَ الْأَشْهُرَ فَأَرْسَلَ إِلَی أَبِي بَکْرٍ أَنْ ائْتِنَا وَلَا يَأْتِنَا أَحَدٌ مَعَکَ کَرَاهِيَةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ فَقَالَ عُمَرُ لَا وَاللَّهِ لَا تَدْخُلُ عَلَيْهِمْ وَحْدَکَ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ وَمَا عَسَيْتَهُمْ أَنْ يَفْعَلُوا بِي وَاللَّهِ لآتِيَنَّهُمْ فَدَخَلَ عَلَيْهِمْ أَبُو بَکْرٍ فَتَشَهَّدَ عَلِيٌّ فَقَالَ إِنَّا قَدْ عَرَفْنَا فَضْلَکَ وَمَا أَعْطَاکَ اللَّهُ وَلَمْ نَنْفَسْ عَلَيْکَ خَيْرًا سَاقَهُ اللَّهُ إِلَيْکَ وَلَکِنَّکَ اسْتَبْدَدْتَ عَلَيْنَا بِالْأَمْرِ وَکُنَّا نَرَی لِقَرَابَتِنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصِيبًا حَتَّی فَاضَتْ عَيْنَا أَبِي بَکْرٍ فَلَمَّا تَکَلَّمَ أَبُو بَکْرٍ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي وَأَمَّا الَّذِي شَجَرَ بَيْنِي وَبَيْنَکُمْ مِنْ هَذِهِ الْأَمْوَالِ فَلَمْ آلُ فِيهَا عَنْ الْخَيْرِ وَلَمْ أَتْرُکْ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ فِيهَا إِلَّا صَنَعْتُهُ فَقَالَ عَلِيٌّ لِأَبِي بَکْرٍ مَوْعِدُکَ الْعَشِيَّةَ لِلْبَيْعَةِ فَلَمَّا صَلَّی أَبُو بَکْرٍ الظُّهْرَ رَقِيَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَتَشَهَّدَ وَذَکَرَ شَأْنَ عَلِيٍّ وَتَخَلُّفَهُ عَنْ الْبَيْعَةِ وَعُذْرَهُ بِالَّذِي اعْتَذَرَ إِلَيْهِ ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَتَشَهَّدَ عَلِيٌّ فَعَظَّمَ حَقَّ أَبِي بَکْرٍ وَحَدَّثَ أَنَّهُ لَمْ يَحْمِلْهُ عَلَی الَّذِي صَنَعَ نَفَاسَةً عَلَی أَبِي بَکْرٍ وَلَا إِنْکَارًا لِلَّذِي فَضَّلَهُ اللَّهُ بِهِ وَلَکِنَّا نَرَی لَنَا فِي هَذَا الْأَمْرِ نَصِيبًا فَاسْتَبَدَّ عَلَيْنَا فَوَجَدْنَا فِي أَنْفُسِنَا فَسُرَّ بِذَلِکَ الْمُسْلِمُونَ وَقَالُوا أَصَبْتَ وَکَانَ الْمُسْلِمُونَ إِلَی عَلِيٍّ قَرِيبًا حِينَ رَاجَعَ الْأَمْرَ الْمَعْرُوفَ

یحیی بن بکیر، لیث، عقیل، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ دختر نبی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے (کسی کو) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کے زمانہ خلافت میں بھیجا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مال کی جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں دیا تھا اور خیبر کے بقیہ خمس کی میراث چاہتے ہیں تو ابوبکر نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارے مال کا کوئی وارث نہیں، جو کچھ ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے ہاں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے (بقدر ضرورت) کھا سکتی ہے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ میں آپ کے عہد مبارک کے عمل کے خلاف بالکل تبدیلی نہیں کر سکتا اور میں اس میں اسی طرح عمل درآمد کروں گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے یعنی حضرت ابوبکر نے اس میں ذرا سی بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس مسئلہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ناراض ہو گئیں اور انہوں نے اپنی وفات تک حضرت ابوبکر سے گفتگو نہ کی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں جب ان کا انتقال ہوگیا تو ان کے شوہر حضرت علی نے انہیں رات ہی کو دفن کردیا اور حضرت ابوبکر کو اس کی اطلاع بھی نہ دی، اور خود ہی ان کے جنازہ کی نماز پڑھ لی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حیات میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لوگوں میں وجاہت حاصل تھی جب ان کی وفات ہوگئی تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کا رخ پھرا ہوا پایا تو ابوبکر سے صلح اور بیعت کی درخواست کی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے (چھ) مہینوں میں (حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تیمارداری اور دیگر مشاغل و اسباب کی بناء پر) حضرت ابوبکر سے بیعت نہیں کی تھی تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائیں اور آپ کے ساتھ کوئی دوسرا نہ ہو یہ اس لئے کہا کہ کہیں عمر نہ آجائیں حضرت عمر کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے فرمایا بخدا! آپ وہاں تنہا نہ جائیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا مجھے ان سے یہ امید نہیں کہ وہ میرے ساتھ کچھ برائی کریں بخدا! میں ان کے پاس جاؤں گا لہذا ابوبکر ان کے پاس چلے گئے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تشہد کے بعد فرمایا کہ ہم آپ کی فضیلت اور اللہ کے عطا کردہ انعامات کو بخوبی جانتے ہیں نیز ہمیں اس بھلائی میں (یعنی خلافت میں) جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے کوئی حسد نہیں لیکن آپ نے اس امر خلافت میں ہم پر زیادتی کی ہے حالانکہ قرابت رسول کی بناء پر ہم سمجھتے تھے کہ یہ خلافت ہمارا حصہ ہے حضرت ابوبکر یہ سن کر رونے لگے اور فرمایا قسم ہے اللہ کی! قرابت رسول کی رعایت میری نظر میں اپنی قرابت کی رعایت سے زیادہ پسندیدہ ہے اور میرے اور تمہارے درمیان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو اختلاف ہوا ہے تو میں نے اس میں ہرگز امر خیر سے کوتاہی نہیں کی اور اس مال میں میں نے جو کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا اسے نہیں چھوڑا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ زوال کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بعیت کرنے کا وعدہ ہے جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ظہر کی نماز پڑھ لی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ منبر پر بیٹھے اور تشہد کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حال، بیعت سے ان کے پیچھے رہنے اور انہوں نے جو عذر پیش کئے تھے انہیں بیان فرمایا: پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے استغفار و تشہد کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حقوق کی عظمت و بزرگی بیان کرکے فرمایا کہ میرے اس فعل کا باعث حضرت ابوبکر پر حسد اور اللہ نے انہیں جس خلافت سے نوازا ہے اس کا انکار نہیں تھا لیکن ہم سمجھتے تھے کہ امر خلافت میں ہمارا بھی حصہ تھا لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں ہمیں چھوڑ کر خود مختار بن گئے تو اس سے ہمارے دل میں کچھ تکدر تھا، تمام مسلمان اس سے خوش ہو گئے اور کہا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درست کام کیا اور مسلمان حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس وقت پھر ساتھی ہو گئے جب انہوں نے امر بالمعروف کی طرف رجوع کر لیا۔

Narrated 'Aisha:
Fatima the daughter of the Prophet sent someone to Abu Bakr (when he was a caliph), asking for her inheritance of what Allah's Apostle had left of the property bestowed on him by Allah from the Fai (i.e. booty gained without fighting) in Medina, and Fadak, and what remained of the Khumus of the Khaibar booty. On that, Abu Bakr said, "Allah's Apostle said, "Our property is not inherited. Whatever we leave, is Sadaqa, but the family of (the Prophet) Muhammad can eat of this property.' By Allah, I will not make any change in the state of the Sadaqa of Allah's Apostle and will leave it as it was during the lifetime of Allah's Apostle, and will dispose of it as Allah's Apostle used to do." So Abu Bakr refused to give anything of that to Fatima. So she became angry with Abu Bakr and kept away from him, and did not task to him till she died. She remained alive for six months after the death of the Prophet. When she died, her husband 'Ali, buried her at night without informing Abu Bakr and he said the funeral prayer by himself. When Fatima was alive, the people used to respect 'Ali much, but after her death, 'Ali noticed a change in the people's attitude towards him. So Ali sought reconciliation with Abu Bakr and gave him an oath of allegiance. 'Ali had not given the oath of allegiance during those months (i.e. the period between the Prophet's death and Fatima's death). 'Ali sent someone to Abu Bakr saying, "Come to us, but let nobody come with you," as he disliked that 'Umar should come, 'Umar said (to Abu Bakr), "No, by Allah, you shall not enter upon them alone " Abu Bakr said, "What do you think they will do to me? By Allah, I will go to them' So Abu Bakr entered upon them, and then 'Ali uttered Tashah-hud and said (to Abu Bakr), "We know well your superiority and what Allah has given you, and we are not jealous of the good what Allah has bestowed upon you, but you did not consult us in the question of the rule and we thought that we have got a right in it because of our near relationship to Allah's Apostle ."
Thereupon Abu Bakr's eyes flowed with tears. And when Abu Bakr spoke, he said, "By Him in Whose Hand my soul is to keep good relations with the relatives of Allah's Apostle is dearer to me than to keep good relations with my own relatives. But as for the trouble which arose between me and you about his property, I will do my best to spend it according to what is good, and will not leave any rule or regulation which I saw Allah's Apostle following, in disposing of it, but I will follow." On that 'Ali said to Abu Bakr, "I promise to give you the oath of allegiance in this after noon." So when Abu Bakr had offered the Zuhr prayer, he ascended the pulpit and uttered the Tashah-hud and then mentioned the story of 'Ali and his failure to give the oath of allegiance, and excused him, accepting what excuses he had offered; Then 'Ali (got up) and praying (to Allah) for forgiveness, he uttered Tashah-hud, praised Abu Bakr's right, and said, that he had not done what he had done because of jealousy of Abu Bakr or as a protest of that Allah had favored him with. 'Ali added, "But we used to consider that we too had some right in this affair (of rulership) and that he (i.e. Abu Bakr) did not consult us in this matter, and therefore caused us to feel sorry." On that all the Muslims became happy and said, "You have done the right thing." The Muslims then became friendly with 'Ali as he returned to what the people had done (i.e. giving the oath of allegiance to Abu Bakr).

یہ حدیث شیئر کریں