نملہ کا منتر
راوی:
وعن الشفاء بنت عبد الله قالت دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا عند حفصة فقال ألا تعلمين هذه رقية النملة كما علمتيها الكتابة ؟ . رواه أبو داود .
اور حضرت شفاء بنت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ (ایک دن ) میں ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بیٹھی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے اور مجھ کو (دیکھ کر ) فرمایا کہ کیا تم ان کو (یعنی حفصہ کو ) نملہ کا منتر نہیں سکھا دیتیں جس طرح کہ تم نے ان کو لکھنا سکھایا ہے ۔" (ابو داؤد )
تشریح
شفاء۔ عبداللہ بن شمس کی بیٹی اور قریشی عدوی ہیں ان کا اصلی نام لیلی تھا اور شفاء لقب تھا جو اتنا مشہور ہوا کہ اصل نام پر غالب آ گیا، انہوں نے ہجرت سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اونچے درجہ کی عاقلہ فاضلہ عورتوں میں سے تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کو قیلولہ کے لئے ان کے یہاں تشریف لے جاتے اور وہاں آرام فرماتے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بستر اور لنگی کا انتظام کر رکھا تھا تاکہ آرام کے وقت یہ دونوں چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں ۔
" نملہ " کے بارے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ ان پھنسیوں کو نملہ کہتے ہیں جو پسلیوں پر نکلتی ہیں اور بہت تکلیف پہنچاتی ہیں، جو شخص ان پھنسیوں میں مبتلا ہوتا ہے، اس کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان پھنسیوں کی جگہ چیونٹیاں رینگ رہی ہوں اور غالباً اسی مناسبت سے ان پھنسیوں کو نملہ چیونٹی کہا جاتا ہے ۔ حضرت شفاء رضی اللہ تعالیٰ عنہا مکہ میں ان نملہ کے دفعیہ کے لئے منتر پڑھ کر جھاڑ پھونک کرتی تھیں، جب انہوں نے اسلام قبول کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے آئے اور یہ بھی وہاں پہنچیں تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے زمانہ جاہلیت میں نملہ کے دفعیہ کے لئے ایک منتر پڑھا کرتی تھیں، اب چاہتی ہوں کہ وہ منتر پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سناؤں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں حکم دیں کہ اس منتر کا پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس منتر کو سن کر اس کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنے کی اجازت دیدی اور پھر فرمایا کہ یہ منتر حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھی سکھا دو ۔
" رقیہ نملہ " سے مراد وہ چند کلمات ہیں جو عرب کی عورتوں میں مشہور تھے، جن کو وہ رقیہ نملہ کہتی تھیں ورنہ نملہ کا جو منتر حقیقی منتر تھا وہ تو دراصل خرافات کا مجموعہ تھا جس کو پڑھنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا تھا ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس منتر کے سکھانے کا حکم کیوں فرماتے وہ مشہور کلمات جن کو عرب کو عورتیں رقیہ نملہ کہتی تھیں یہ ہیں الغروس تنتعل وتختضب وتکعل وکل شیء تفتعل غیر انہا والا نقصی الرجل یعنی دلہن کو چاہئے کہ مانگ چوٹی اور زیب و زینت کرے، ہاتھ پاؤں رنگے ، سرمہ لگائے ہر بات کرے مگر مرد کی نافرمانی نہ کرے ۔
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شفاء سے یہ فرمانا کہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نملہ کا منتر سکھا دو حقیقت میں تعریض کے طور پر تھا اور اس کا ایک خاص پس منظر تھا اور وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ مطہرہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ایک راز کی بات سنائی تھی ، لیکن حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس کو فاش کر دیا اس کا ذکر قرآن کریم کی سورت تحریم میں بھی کیا گیا ہے ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شفاء سے مذکورہ ارشاد فرما کر گویا حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نصیحت کی اور ان کو متنبہ کیا کہ تم نے میرے بتائے ہوئے راز کو ظاہر کر کے شوہر کی نافرمانی کی ہے جو نہ صرف تمہارے مقام و مرتبہ کے منافی بات ہے بلکہ وفا شعار عورت کی اس خصوصیت کے بھی منافی ہے کہ وہ شوہر کی نافرمانی کرنا گوارا نہیں ہوتی ۔
ایک حدیث میں عورتوں کو لکھنا سکھانے کی ممانعت منقول ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لاتعلم الکتابۃ اس کے برخلاف اس حدیث میں اس کا جواز ثابت ہوتا ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ اس حدیث کا تعلق اس وقت سے ہو جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ممانعت ارشاد نہیں فرمائی تھی گویا ممانعت والی حدیث بعد کی ہے اور یہاں جو حدیث نقل کی گئی ہے وہ پہلے کی ہے۔ بعض حضرات اس بارے میں کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی ایک خاص حیثیت تھی اس بنا پر بعض احکام و فضائل میں بھی ان کو مخصوص رکھا گیا ہے لہٰذا ممانعت کا تعلق اور تمام عورتوں سے ہے کہ ان کا اس فتنہ وبرائی میں مبتلا ہو جانا عین ممکن ہے جو مذکورہ ممانعت کی بنیاد ہے ۔ جب کہ ازواج مطہرات کے بارے میں اس طرح کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے اس لئے ان کو لکھنا سیکھنے کی اجازت تھی ۔
خطابی کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کو لکھنا سکھانا مکروہ ہے اور ملا علی قاری نے کہا ہے کہ یہ احتمال ہے کہ اس وقت یعنی زمانہ رسالت میں عورتوں کو لکھنا سکھانا جائز ہو لیکن فتنہ وفساد میں مبتلا ہو جانے کے خوف کے سبب سے بعد کی عورتوں کے لئے جائز نہ ہو بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ لکھنا سکھانے کا مذکورہ حکم صرف حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لئے تھا دوسری عورتوں کے لئے نہیں ۔