معدے کی مثال
راوی:
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم المعدة حوض البدن والعروق إليها واردة فإذا صحت المعدة صدرت العروق بالصحة وإذا فسدت المعدة صدرت العروق بالسقم .
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (آدمی کا ) معدہ بدن کا حوض ہے اور پیٹ کی رگیں (جو اعضاء جسم سے پیوستہ ہیں) معدہ کی طرف (پانی پینے والے کی طرح ) آتی ہیں جب معدہ درست ہوتا ہے تو یہ رگیں معدہ سے صحت بخش رطوبات کے ساتھ اعضاء کی طرف جاتی ہیں (جس سے بدن کو صحت و طاقت حاصل ہوتی ہے ) اور جب معدہ خراب ہوتا ہے تو یہ رگیں فاسد رطوبات کے ساتھ اعضاء کی طرف جاتی ہیں (جس سے بدن کو بیماری اور ضعف لاحق ہو جاتا ہے ) ۔"
تشریح
مطلب یہ ہے کہ انسان کے بدن اور اس کے معدہ کے درمیان وہی نسبت ہے جو پانی کے تالاب وغیرہ اور درخت کے درمیان ہے کہ جس طرح کسی تالاب کے کنارے یا پانی میں کھڑا ہوا درخت اپنے رگ و ریشہ کے ذریعہ پانی سے حیات بخش رطوبات حاصل کرتا ہے اسی طرح جسم انسانی مختلف رگوں کے ذریعہ اپنے معدہ سے صحت و طاقت کی رطوبات حاصل کرتا ہے چنانچہ اگر پانی صاف و شیریں ہوتا ہے تو وہ درخت کی تازگی اور نشوونما کا سبب بنتا ہے اور اگر پانی گدلا اور کھارا ہوتا ہے تو وہ درخت کی پژمزدگی وخشکی کا باعث بن جاتا ہے ۔
زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ حدیث کو طب نبوی پر محمول کیا جائے اس صورت میں مذکورہ بالا ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہوگا کہ انسان کے اقوال وافعال، کردار وعادات اور اخلاق واطوار اس کی غذا وخوراک کے مطابق ہوتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے پیٹ میں حرام غذا داخل ہوتی ہے تو اس کے اعضاء جسم سے حرام افعال واقوال صادر ہوتے ہیں اسی طرح اگر کسی شخص کے پیٹ میں کھانے پینے کی فضول وغیرہ مناسب چیزیں جاتی ہیں تو اس کے جسم کے ہر چھوٹے بڑے عضو سے فضول و غیر مناسب افعال وغیرہ صادر ہوتے ہیں اس کے برخلاف جس شخص کے پیٹ میں حلال و پاک غذائیں جاتی ہیں اس کے اعضاء وجسم سے صالح و پاکیزہ افعال صادر ہوتے ہیں گویا انسان کی غذا اس کے افعال کا تخم ہے اور افعال بمنزلہ روئیدگی کے ہیں اور اس کے پیٹ میں جس طرح کی غذا جائے گی اس کے اعضاء سے اسی طرح کے افعال ظاہر ہوں گے جیسا کہ کہا گیا ہے ۔ اناء یترشح بما فیہ یعنی ہر برتن سے وہی چیز ٹپکتی اور نکلتی ہے جو اس کے اندر ہوتی ہے ۔ اسی لئے حق تعالیٰ فرماتا ہے ۔ آیت (کلوا من الطبیت واعملوا صالحا) ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے من نبت لحمہ من سحت فالنار اولی بہ ۔
بعض محدثین نے اس حدیث کے بارے میں کلام کیا ہے اور بعض نے تو اس کو موضوع من گھڑت قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ " لااصل لہ " (یعنی اس حدیث کو کوئی اصل نہیں ہے ) لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث کے بارے میں یہ کہنا کہ باطل ہے اور اس کی کوئی اصل نہیں ہے غیر صحیح بات کیونکہ تعدد طرق کے سبب اور طبرانی وبہیقی کی روایت کی بنا پر اس کو تقویت حاصل ہوتی ہے اور اس بنا پر اس حدیث کو بلا شک و شبہ حسن یا ضعیف کہا جا سکتا ہے ۔