مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ طب کا بیان ۔ حدیث 507

جو علم نفع پہنچانے والا نہ ہو اس سے احتراز کرنا ہی دانشمندی ہے

راوی:

مولانا شاہ عبد العزیز آیت کریمہ (يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰي) 20۔طہ : 66) کے اس ٹکڑے آیت (وَيَتَعَلَّمُوْنَ مَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ) 2۔ البقرۃ : 102) کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہودی ان دونوں طرح کے سحر سیکھنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے تھے ۔ جو انتہائی مذموم و قبیح ہیں بلکہ وہ اپنے اوقات اور اپنی صلاحیتوں کو دوسرے ایسے علوم کے حصول میں بھی صرف کرتے تھے جو علم شریعت اور وحی الہٰی سے دور کر دینے کا ذریعہ اور موجب بنتے ہیں، چنانچہ وہ اس طرح کے علوم سیکھتے تھے جو ان کے لئے نقصان دہ ہوتے تھے گو دوسروں کو نقصان نہ پہنچاتے ہوں اور ان سے خود ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا تھا، گو اوروں کو فائدہ پہنچتا ہو، لہٰذا عقلمندی، سمجھداری کا تقاضہ یہی ہے کہ انسان ہر اس علم وفن سے احتراز کرے جو نفع بخش ہونے کی بجائے کسی طرح کا نقصان پہنچانے والا ہو ۔ مگر واضح رہے کہ کسی شخص کے حق میں کسی علم کا مذموم و معیوب ہونا ان تینوں جہتوں میں سے کسی ایک جہت کے سبب سے ہوتا ہے ایک تو یہ کہ اس علم سے خود اپنے کو یا دوسروں کو نقصان پہنچنے کا خوف ہو، جیسے سحر و طلسمات کا علم نجوم کا علم بھی اسی میں شامل ہے کیونکہ اس کے ذریعہ اکثر لوگ عقیدہ کی گمراہی میں مبتلا ہو کر اپنا اخروی نقصان کرتے ہیں ، چنانچہ جب وہ زمین اور کواکب سیارات کا باہم ربط دیکھتے ہیں اور علم نجوم ان کو بتاتا ہے کہ کرہ ارضی پر رونما ہونے والے تغیرات و واقعات اجرام فلکی کی حرکت و سکون اور سیارگان کی چال کے زیر اثر ہوتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ عالم میں جو بھی حادثہ و تغیر وقوع پذیر ہوا ہو وہ فلاں ستارے فلاں برج اور فلاں درجے کی تاثیر کے سبب سے ہے، اس طرح وہ اپنے مقاصد کے حصول کی امید یا مقاصد کے فوت ہو جانے کے خوف کو ستاروں اور ان کے بروج و منازل سے وابستہ کرتے ہیں۔ یعنی وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اگر فلاں ستارہ فلاں برج اور فلاں منزل میں ہوگا تو ہمارا فلاں مطلب حاصل ہوگا اور اگر فلاں ستارہ فلاں برج و منتری میں داخل ہوگا تو ہمارا فلاں مطلب حاصل نہیں ہو گا گویا ان کی توجہ ذات حق جل مجدہ کی طرف سے ہٹ جاتی ہے ۔ جو نفع و نقصان کا حقیقی مالک ہے اور ان کے دل پر ایسا پردہ پڑ جاتا ہے جو ان کو نظر الی اللہ سے روک دیتا ہے ۔
دوسرے یہ کہ وہ علم اگرچہ بذات خود نقصان پہنچانے والا نہ ہو لیکن اس کو حاصل کرنے کا دعویدار اس کے حقائق و نکات اور اس کے باریک و مخفی گوشوں تک اپنی عدم صلاحیت اور عدم استعداد کی وجہ سے نہ پہنچ سکتا ہو ، ظاہر ہے کہ ایسا شخص جو علم کے حقائق و دقائق تک رسائی ہی نہ حاصل کر سکا ہو اس علم کا فاضل و ماہر تو ہونے سے رہا، البتہ جہل مرکب میں ضرور مبتلا ہو جائے گا، اسی لئے بے صلاحیت لوگوں کا اسرار و رموز الہٰیہ احکام شرعیہ کے بارے میں بحث و تمحیص کرنا، اکثر وبیشتر فلسفیانہ علوم میں جان کھپانا، قضا و قدر اور صبر و اختیار کے مسئلے میں تحقیق و جستجو کرنا مسئلہ تو حید وجودی و شہودی کی راہ پر لگنا، اور بعض صحابہ کے درمیان آپسی نزاعات وخصومات کی جو صورتیں پیدا ہو گئی تھیں ان کو علم و تحقیق کے نام پر اچھالنا یا ان کی کھوج کرید کرنا وغیرہ وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جن کو مذکورہ بالا علم کے زمرہ میں شمار کیا جاتا ہے، اسی طرح شعر و شاعری کے فن کو بھی کچھ اچھا علم نہیں سمجھا جاتا، کیونکہ شعر و شاعر کی بنیاد زیادہ تر حسن و عشق کے مضامین اور غیر پاکیزہ خیالات وتصورات پر ہوئی ہے اور یہ چیز عوام کے حق میں کہ جن کے دل و دماغ نفساتی خواہشات اور جنسی جذبات سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں زہر جیسی تاثیر رکھتی ہے اور تمام امور میں تخیل پردازی ومبالغہ آرائی کا ملکہ پیدا کرتی ہے ۔
اور تیسرے یہ کہ شریعت سے متعلق علوم محمودہ میں بے جا فکر اور تعمق کیا جائے اور اس میں افراط و تفریط سے کام لیا جائے، جیسے عقائد و توحید کے علوم میں فلسفیانہ موشگافیاں اور دیگر شرعی علوم و قواعد میں عقل و منطق کی غیر موزوں اور غیر ضروری نکتہ آفرینیاں کی جائیں، اور فقہی احکام و مسائل میں کھوج کرید کر کے بے اصل حیلوں اور نادر روایات و اقوال کو بیان کیا جائے اسی طرح سلوک و ریاضت کے علم میں ایسے اصول و قواعد اور اعمال و اشغال داخل کرنا جو جوگیوں وغیرہ کا طریقہ ہے ۔ یا دعوت اسماء الہٰی اور دوسرے عملیات دعا تعویذ اور جھاڑ پھونک میں سحر و طلسمات کے اصول و قواعد کو شامل کرنا، یا انبیاء علیہ السلام کے قصص و حالات میں یہود و روافض جیسے معاندین حق کے بیان کردہ جھوٹے قصے اور روایات کو سننا ان کو بیان کرنا کہ جن سے عقائد وغیرہ بھی اسی حکم میں شامل ہیں ۔
غرضیکہ علم کی یہ جو قسمیں بیان کی گئی ہیں ان کے متوقع فوائد لوگوں کو نہیں پہنچتے بلکہ ان کے حق میں نقصان دہ ہوتے ہیں، یہودی عام طور پر انہی جیسے لاحاصل ، بے مقصد اور غیر نفع بخش علوم میں مشغول و مصروف رہتے تھے اور اصل علوم محمودہ سے اعرا ض کرتے تھے ۔

یہ حدیث شیئر کریں