فال اور طیرہ کا بیان
راوی:
" فال " اصل میں تو مطلق شگون کو کہتے ہیں، لیکن عام طور پر اس لفظ کا استعمال نیک شگون یا اچھی فال کے معنی میں ہوتا ہے ۔ نیک شگون یا اچھی فال کا مطلب ہے کسی اچھی بات کو سننا یا کسی اچھی چیز کو دیکھنا جس سے اپنی مراد حاصل ہونے کی توقع پیدا ہو ، مثلا کوئی شخص بیمار ہو اور اس بات کے تردد اندیشہ میں ہو کہ صحت پاؤں گا یا نہیں اور اس حالت میں وہ سنے کہ کوئی کہہ رہا ہے ۔ یا سالم یا کوئی شخص میدان جنگ رہا تھا کہ ایک شخص سے ملاقات ہو گئی ۔ جس کا نام ظفر خاں یا فتح علی تھا ، اور مثلاً کوئی شخص کسی چیز کا طالب ہو یا اس کی کوئی چیز گم ہو گئی ہو اور وہ اس کو تلاش کر رہا ہو، اور اسی اثناء میں اس کے کان میں یا واجد کی آواز آئے، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ کبھی لفظ " فال " برائی کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں چیز کا واقع ہونا بری فال ہے ۔ یا زبان سے بری بات نکالنا بدفالی ہے ۔ ۔
" طیرۃ" نظیر (یعنی بدفالی لینا ) کا مصدر ہے جیسا کہ " خیرہ " تخیرہ " کا مصدر ہے ان دونوں لفظوں کے سوا پر مطلق فال یعنی شگوں کے معنی میں بھی ہوتا ہے جو وہ فال اچھی ہو یا بری ۔
تطیر کی اصل اور اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب عام طور پر اس طرح شگون لیتے تھے کہ جب وہ کوئی کام کرتے یا کسی سفر پر جانے کا ارادہ کرتے تو کسی پرندے یا ہرن کو چھچھکار دیتے اگر وہ داہنی سمت میں اڑ جاتا یا دائیں طرف کو بھاگتا تو اس کو مبارک جانتے اور نیک فال لیتے اور پھر اس کام کو شروع کرتے یا سفر پر روانہ ہوتے، اور اگر وہ پرندہ یا ہرن بائیں سمت میں اڑ جاتا یا بائیں طرف کا بھاگتا تو اس کو نجس جانتے اور اس کام سے باز رہتے ۔
واضح رہے کہ شکار کے اس جانور کو سنوح یا سانع کہتے ہیں جو سامنے سے نمودار ہو کر بائیں طرف سے دائیں طرف کو جا رہا ہو اور شکار کا جو جانور دائیں طرف سے بائیں طرف کو جا رہا ہو اس کو بروح یا بارح کہتے ہیں عرب کے لوگ سنوح کو مبارک اور بروح کو منحوس سمجھتے تھے چنانچہ بعض مواقع پر " سوانح " اور " بوارح " اور ان کے ذریعہ شگون لینے کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کے یہی منعی ہیں ۔
یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ نیک فال لینا محمود و مستحسن بلکہ مستحب ہے جب کہ تطیر یعنی بری فال لینا مذموم و ممنوع ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کثرت کے ساتھ اور خاص طور پر لوگوں کے ناموں اور جگہوں کے ذریعہ اچھی فال لیتے تھے ان دونوں میں فرق و امتیاز اس بنا پر ہے کہ نیک فال میں اول اول تو اطمینان اور خوشی حاصل ہوتی ہے دوسرے اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے اچھائی اور بھلائی کی امید آوری ہوتی ہے ۔ نیز دل میں اچھائی اور بھلائی ہی کا خیال آتا ہے اور یہ آمید آوری اور یہ خیال ہر حالت میں بندے کے لئے بہتر ہے گو اس کی مراد پوری نہ ہو، اور بد فالی اس لئے ممنوع و مذموم ہے کہ اس میں خواہ مخواہ رنج اور تردد پیدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے قطع امید ہوتی ہے اور نا امیدی و نامرادی کا احساس اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا کر دیتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ چیزیں شرعا مذموم و ممنوع بھی ہیں اور عقل و دانش کے منافی بھی ہیں جب کہ بہر صورت ہوگا وہی جو اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے ۔
بہر حال اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جو فال وطیرہ سے متعلق اور جن کی تحقیق اوپر بیان کی گئی نیز مؤلف مشکوٰۃ نے اس باب میں وہ احادیث نقل کی ہیں، جن میں عدویٰ، ہامہ، اور ان جیسی دوسری اور چیزوں کا ذکر ہے اور یہ سب بھی تطیر یعنی بد فالی کے مفہوم کی حامل اور اسی کے حکم میں داخل ہیں ۔