مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ طب کا بیان ۔ حدیث 510

چند بے اصل باتیں اور ان کا بطلان

راوی:

وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا عدوى ولا طيرة ولا هامة ولا صقر وفر المجذوم كما تفر من الأسد . رواه البخاري .

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگنا بد شگونی ہامہ، اور صفریہ سب چیزیں بے حقیقت ہیں (البتہ ) تم جذامی سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو ۔" (بخاری )

تشریح
یہ خیال کہ ایک شخص کی بیماری دوسرے کو لگ جاتی ہے، زمانہ جاہلیت کی یادگار ہے، چنانچہ اہل عرب کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص بیمار کے پہلو میں بیٹھ جائے یا اس کے ساتھ کھائے پئے تو وہ بیماری اس میں بھی سرایت کر جائے گی ، علماء لکھتے ہیں کہ عام طور پر اطباء کے نزدیک سات بیماریاں ایسی ہیں جو ایک دوسرے کو لگتی ہیں (١) جذام (٢) خارش (٣) چیچک (٤) آبلے جو بدن پر پڑ جاتے ہیں (٥) گندہ دہنی (٧) وبائی امراض ۔
لہذا شارع علیہ السلام نے اس اعتقاد خیال کو رد کرتے ہوئے واضح کیا کہ مرض کا ایک سے دوسرے میں سرایت کرنا اور اڑ کر لگنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا بلکہ اس کا تعلق نظام قدرت اور قادر مطلق کی مشیت سے ہے کہ جس طرح پہلا شخص بیمار ہوا ہے اسی طرح دوسرا شخص بھی اس بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے ۔ رہی یہ بات کہ جب تمام امراض کے ہی بارے میں چھوت کے اعتقاد و نظریہ کی تردید کی گئی ہے تو پھر جذامی سے بھاگنے کا حکم کیوں دیا گیا اور اس طرح خود اس حدیث کے مفہوم میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے تو اس کا جواب انشاء اللہ فصل کے آخر میں نقل کیا جائے گا ۔
بد شگونی کے بارے میں تو او پر بیان کیا جا چکا ہے ! " ھاما " کے اصل میں معنی سر کے ہیں، لیکن یہاں اس لفظ سے ایک خاص جانور مراد ہے جو عربوں کے گمان کے مطابق میت کے استخوان سے پیدا ہو کر اڑتا ہے، زمانہ جاہلیت میں اہل عرب یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر کسی شخص کو قتل کر دیا جاتا ہے تو اس مقتول کے سر سے ایک جانور جس کو " ہامہ " کہتے ہیں باہر نکلتا ہے اور ہر وقت یہ فریاد کرتا رہتا ہے کہ مجھے پانی دو ، پانی دو ، یا وہ قاتل سے انتقام لینے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب قاتل (خود اپنی موت سے یا کسی کے قتل کر دینے سے ) مر جاتا ہے تو وہ جانور اڑ کر غائب ہو جاتا ۔
بعض لوگ یہ کہا کرتے تھے خود مقتول کی روح اس جانور کا روپ اختیار کر لیتی ہے اور فریاد کرتی ہے تاکہ قاتل سے بدلہ لے سکے جب اس کو قاتل سے بدلہ مل جاتا ہے تو اڑ کر غائب ہو جاتا ہے ۔شارع علیہ السلام نے اس اعتقاد کو بھی باطل قرار دیا اور فرمایا کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ " ہامہ " سے مراد " الو" ہے کہ جب وہ کسی گھر پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ گھر ویران ہو جاتا ہے ۔ یا اس گھر کا کوئی فرد مر جاتا ہے ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ اس عقیدہ کو بالکل مہمل قرار دیا اور واضح رہے فرمایا کہ تطیر یعنی پرندہ کے ذریعہ بدفالی لینے کے حکم میں ہے جو ایک ممنوع چیز ہے ۔
" صفر" کی وضاحت میں متعدد اقوال بیان کئے جاتے ہیں، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس سے تیرہ تیزی کا مہینہ مراد ہے جو محرم کے بعد آتا ہے اور جس کو صفر کہتے ہیں، چونکہ کمزور عقیدہ لوگ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس مہینے میں آفات و بلاء اور حوادث ومصائب کا نزول ہوتا ہے اس لئے اس ارشاد کے ذریعہ اس عقیدے کو باطل وبے اصل قرار دیا گیا ۔
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اہل عرب یہ کہا کرتے تھے کہ ہر انسان کے پیٹ میں ایک سانپ ہوتا ہے ۔ جس کو " صفر" کہا جاتا ہے ان کے گمان کے مطابق جب پیٹ خالی ہوتا ہے اور بھوک لگتی ہے تو وہ سانپ کاٹتا ہے اور تکلیف پہنچاتا ہے ان کا کہنا تھا کہ بھوک کے وقت پیٹ میں جو ایک قسم کی تکلیف محسوس ہوتی ہے اور اسی سانپ کے سبب سے ہوتی ہے اور اس کے اثرات ایک دوسرے میں سرایت کرتے ہیں ، نووی نے شرح مسلم میں یہ لکھا ہے کہ بعض لوگوں کے گمان کے مطابق " صفر " ان کیڑوں کو کہتے ہیں جو پیٹ میں ہوتے ہیں اور بھوک کے وقت کاٹتے ہیں ۔ بسا اوقات ان کے سبب سے آدمی زرد رنگ کا ہو جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ ہلاک بھی ہو جاتا ہے ۔ یہ سب بے اصل باتیں ہیں جن کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں