سنن دارمی ۔ جلد دوم ۔ سیر کا بیان ۔ حدیث 351

جب دشمن مسلمانوں کا مال قبضے میں کرلے

راوی:

أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ كَانَتْ الْعَضْبَاءُ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِي عُقَيْلٍ فَأُسِرَ وَأُخِذَتْ الْعَضْبَاءُ فَمَرَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي وَثَاقٍ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ عَلَى مَا تَأْخُذُونِي وَتَأْخُذُونَ سَابِقَةَ الْحَاجِّ وَقَدْ أَسْلَمْتُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ قُلْتَهَا وَأَنْتَ تَمْلِكُ أَمْرَكَ أَفْلَحْتَ كُلَّ الْفَلَاحِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَأْخُذُكَ بِجَرِيرَةِ حُلَفَائِكَ وَكَانَتْ ثَقِيفٌ قَدْ أَسَرُوا رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حِمَارٍ عَلَيْهِ قَطِيفَةٌ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِي وَظَمْآنُ فَاسْقِنِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ حَاجَتُكَ ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ فُدِيَ بِرَجُلَيْنِ فَحَبَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَضْبَاءَ لِرَحْلِهِ وَكَانَتْ مِنْ سَوَابِقِ الْحَاجِّ ثُمَّ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ أَغَارُوا عَلَى سَرْحِ الْمَدِينَةِ فَذَهَبُوا بِهِ فِيهَا الْعَضْبَاءُ وَأَسَرُوا امْرَأَةً مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَكَانُوا إِذَا نَزَلُوا قَالَ أَبُو مُحَمَّد ثُمَّ ذَكَرَ كَلِمَةً إِبِلُهُمْ فِي أَفْنِيَتِهِمْ فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ لَيْلَةٍ قَامَتْ الْمَرْأَةُ وَقَدْ نُوِّمُوا فَجَعَلَتْ لَا تَضَعُ يَدَيْهَا عَلَى بَعِيرٍ إِلَّا رَغَا حَتَّى أَتَتْ الْعَضْبَاءَ فَأَتَتْ عَلَى نَاقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلُولٍ مُجَرَّسَةٍ فَرَكِبَتْهَا ثُمَّ تَوَجَّهَتْ قِبَلَ الْمَدِينَةِ وَنَذَرَتْ لَئِنْ اللَّهُ نَجَّاهَا لَتَنْحَرَنَّهَا قَالَ فَلَمَّا قَدِمَتْ عُرِفَتْ النَّاقَةُ فَقِيلَ نَاقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَوْا بِهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْبَرَتْ الْمَرْأَةُ بِنَذْرِهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِئْسَمَا جَزَيْتِهَا أَوْ بِئْسَمَا جَزَتْهَا إِنْ اللَّهُ نَجَّاهَا لَتَنْحَرَنَّهَا لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ

حضرت عمران بن حصین بیان کرتے ہیں بنوعقیل سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی اونٹنی جس کا نام عضباء تھا اس کو اس کی اونٹنی سمیت گرفتار کرلیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے گزرے وہ بندھا ہوا تھا وہ بولا اے محمد آپ نے مجھے اور میری تیزرفتار اونٹنی کو کیوں پکڑا جبکہ میں اسلام قبول کرچکاہوں ارشاد فرمایا اگر تم یہ اعتراف کرتے ہو تو تم آزاد ہو تمیہں ہرطرح کی بھلائی نصیب ہوگی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہم نے تمہیں تمہارے حلیف لوگوں کی زیادتی کی وجہ سے پکڑا ہے راوی کا بیان ہے ثقیف قبیلے کے لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو قید کرلیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر تشریف لائے جس پر ایک کمبل پڑا ہوا تھا وہ شخص بولا اے محمد میں بھوکاہوں مجھے کچھ کھلائیے میں پیاساہوں مجھے کچھ پلائیے ارشاد ہوا یہ تمہاری ضرورت یعنی کھانے کا سامان ہے۔ راوی کہتے ہیں پھر ایک شخص کو دو حضرات کے عوض فدیئے کے طور پر ادا کیا گیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اونٹنی کو اپنی سواری کے لئے رکھ لیا کیونکہ وہ انتہائی تیزرفتار تھی۔ پھر ایک مرتبہ مشرکین نے مدینہ منورہ کے جانوروں پر حملہ کیا اور انہیں پکڑ لیا جن میں وہ اونٹنی بھی شامل تھی انہوں نے ایک مسلمان خاتون کو بھی قید کرلیا۔ جب ان لوگوں نے پڑاؤ کیا (امام دارمی فرماتے ہیں اس کے بعد راوی نے ایک جملہ نقل کیا ہے) تو ان کے اونٹ کھلے میدان میں تھے جب رات کا وقت ہوا تو وہ خاتون اٹھی وہ لوگ اس وقت سوچکے تھے وہ خاتون جس اونٹ پرہاتھ رکھتی وہ اونٹ آواز نکالتا۔ یہاں تک کہ جب وہ خاتون عضباء کے پاس آئی تو عضباء نے آواز نہ نکالی وہ خاتون اس پر سوار ہوئی اور مدینہ کی طرف چل پڑی اس نے نذرمانی کہ اگر اللہ نے اسے نجات دی تو وہ اس اونٹنی کو قربان کردے گی۔ راوی کہتے ہیں جب وہ عورت مدینہ پہنچی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو پہچان لیا اور کہا گیا کہ یہ تو اللہ کے رسول کی اونٹنی ہے پھر وہ لوگ اس خاتون کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ اس خاتون نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نذر کے بارے میں بتایا تو آپ نے ارشاد فرمایا تم نے اس اونٹنی کو بہت برا بدلہ دیاہے اللہ نے اسے اس لئے نجات دی کی تم اسے قربان کردو۔ ؟ اللہ کی نافرمانی والی کسی نذر کو پورا کرنا لازم نہیں ہے اور انسان جس چیز کا مالک نہ ہو اس کے بارے میں بھی کوئی نذر پوری کرنا لازم نہیں ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں