جامع ترمذی ۔ جلد اول ۔ خرید وفروخت کا بیان ۔ حدیث 1263

بائع اور مشتری کو افتراق سے پہلے اختیار ہے

راوی: محمد بن بشار , یحیی بن سعید , شعبہ , قتادہ , صالح , ابی خلیل , عبداللہ بن حارث , حکیم بن حزام

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ حَکِيمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِکَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا وَإِنْ کَتَمَا وَکَذَبَا مُحِقَتْ بَرَکَةُ بَيْعِهِمَا هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَهَکَذَا رُوِيَ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَيْهِ فِي فَرَسٍ بَعْدَ مَا تَبَايَعَا وَکَانُوا فِي سَفِينَةٍ فَقَالَ لَا أَرَاکُمَا افْتَرَقْتُمَا وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْکُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ إِلَی أَنَّ الْفُرْقَةَ بِالْکَلَامِ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَهَکَذَا رُوِيَ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ وَرُوِي عَنْ ابْنِ الْمُبَارَکِ أَنَّهُ قَالَ کَيْفَ أَرُدُّ هَذَا وَالْحَدِيثُ فِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَحِيحٌ وَقَوَّی هَذَا الْمَذْهَبَ وَمَعْنَی قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا بَيْعَ الْخِيَارِ مَعْنَاهُ أَنْ يُخَيِّرَ الْبَائِعُ الْمُشْتَرِيَ بَعْدَ إِيجَابِ الْبَيْعِ فَإِذَا خَيَّرَهُ فَاخْتَارَ الْبَيْعَ فَلَيْسَ لَهُ خِيَارٌ بَعْدَ ذَلِکَ فِي فَسْخِ الْبَيْعِ وَإِنْ لَمْ يَتَفَرَّقَا هَکَذَا فَسَّرَهُ الشَّافِعِيُّ وَغَيْرُهُ وَمِمَّا يُقَوِّي قَوْلَ مَنْ يَقُولُ الْفُرْقَةُ بِالْأَبْدَانِ لَا بِالْکَلَامِ حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

محمد بن بشار، یحیی بن سعید، شعبہ، قتادہ، صالح، ابی خلیل، عبداللہ بن حارث، حضرت حکیم بن حزام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فروخت کرنے والے خریدنے والے کو جدا ہونے تک اختیار ہے پس اگر ان لوگوں نے بیع میں سچائی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا تو ان کی بیع میں برکت دے دی گئی لیکن اگر انہوں نے جھوٹ کا سہارا لیا تو اس بیع سے برکت اٹھالی گئی۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اس باب میں حضرت ابوبرزہ، عبداللہ بن عمرو، سمرہ، ابوہریرہ، اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بھی روایت ہے کہ حضرت ابن عمر کی حدیث بھی حسن صحیح ہے بعض صحابہ کرام اور دیگر علماء کا اسی پر عمل ہے امام شافعی، احمد، اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے کہ جدائی سے مراد جسموں کی جدائی ہے نہ بات کی۔ بعض اہل علم نے اسے کلام کے اختتام پر محمول کیا ہے لیکن پہلا قول ہی صحیح ہے اس لئے کہ نبی کریم سے نقل کرنے والے راوی وہ خود ہیں اور وہ اپنی نقل کی ہوئی حدیث کو سب سے زیادہ سمجھتے ہیں ابن عمر سے ہی منقول ہے کہ وہ بیع کا ارادہ کرتے تو اٹھ کر چل دیتے تاکہ اختیار باقی نہ رہے حضرت ابوبرزہ اسلمی سے بھی اسی طرح منقول ہے کہ ان کے پاس دو شخص ایک گھوڑے کی خرید و فروخت کے متعلق فیصلہ کرانے کے لئے حاضر ہوئے جس کی بیع کشتی میں ہوئی تھی تو ابوبرزہ نے فرمایا تمہیں اختیار ہے اس لئے کہ کشتی میں سفر کرنے والے جدا نہیں ہوسکتے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جدائی کو اختیار کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ بعض اہل علم کا مسلک یہی ہے کہ اس سے مراد افتراق بالکلام ہے اہل کوفہ، ثوری، اور امام مالک کا بھی یہی قول ہے ابن مبارک کہتے ہیں کہ جسموں کے افتراق کامذہب زیادہ قوی ہے کیونکہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح حدیث منقول ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے معنی یہ ہیں کہ فروخت کرنے والا خریدنے والے کو اختیار دے لیکن اگر اس اختیار دینے کے بعد خریدنے والے نے بیع کو اختیار کرلیا تو پھر خریدنے والے کا اختیار ختم ہوگیا خواہ جدا ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں امام شافعی اور کئی اہل علم حضرت عبداللہ بن عمر کی حدیث کی یہی تفسیر کرتے ہیں کہ اس سے مراد افتراق ابدان (یعنی جسموں کا جدا ہونا ہے) ۔

Sayyidina Hakim ibn Hizam (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said, “The seller and the buyer have a right to annul the transaction as long as they do not separate. If they speak the truth and clarify everything then there will be blessing in their deal, but if they lie and conceal then blessing will be taken away from their deal.”

[Bukhari 1053, Muslim 1532]

یہ حدیث شیئر کریں