مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ طب کا بیان ۔ حدیث 530

ستاروں کو بارش ہونے کا سبب قرار دینا کفر ہے

راوی:

وعن زيد بن خالد الجهني قال صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح بالحديبية على أثر سماء كانت من الليل فلما انصرف أقبل على الناس فقال هل تدرون ماذا قال ربكم ؟ قالوا الله ورسوله أعلم قال أصبح من عبادي مؤمن بي وكافر فأما من قال مطرنا بفضل الله ورحمته فذلك مؤمن بي كافر بالكوكب وأما من قال مطرنا بنوء كذا وكذا فذلك كافر بي ومؤمن بالكوكب .

حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام حدیبیہ میں ہمیں صبح کی نماز پڑھائی جب کہ رات میں بارش ہو چکی تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم جانتے ہو تمہارے پروردگار نے اس وقت کیا فرمایا ہے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد کیا کہ ابھی مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے ) صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرے بندوں نے آج اس حال میں صبح کی کہ بعض تو مجھ پر ایمان لائے اور بعض نے کفر کی، چنانچہ جس شخص نے یہ کہا کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی ہے تو وہ مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں کے ساتھ کیا (یعنی ستاروں کے اثر کا منکر ہیں ) اور جس شخص نے کہا کہ فلاں ستارے کے طلوع ہونے اور فلاں ستارے کے غروب ہونے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی ہے تو اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لایا ۔" (بخاری ومسلم )

تشریح
جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ بارش ہونے میں ستاروں کی تاثیر کا دخل ہوتا ہے یعنی ستارے ہی بارش برساتے ہیں یا ستارے ہی ایسے اثرات مرتب کرتے ہیں جن سے پانی برستا ہے جیسا کہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا عقیدہ ہوتا ہے تو ایسا شخص کافر ہو جائے گا ۔ہاں اگر اعتقاد کی نوعیت یہ ہو کہ بارش اصل میں اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے اور اس کے فضل و کرم سے ہوتی ہے ۔ اور ستاروں کا طلوع و غروب اور نچھتر وغیرہ کی ایک علامت ہے ۔ اور ان چیزوں کی بنیاد پر بارش ہونے کا گمان کیا جا سکتا ہے تو یہ کفر نہیں لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس طرح کا خیال و عقیدہ رکھنا بھی مکروہ تنزیہی ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں