شہاب ثاقب کی حقیقت
راوی:
وعن ابن عباس قال أخبرني رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم من الأنصار أنهم بينا جلوس ليلة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم رمي بنجم واستنار فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ما كنتم تقولون في الجاهلية إذا رمي بمثل هذا ؟ قالوا الله ورسوله أعلم كنا نقول ولد الليلة رجل عظيم ومات رجل عظيم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم فإنها لا يرمى بها لموت أحد ولا لحياته ولكن ربنا تبارك اسمه إذا قضى أمر سبح حملة العرش ثم سبح أهل السماء الذين يلونهم حتى يبلغ التسبيح أهل هذه السماء الدنيا ثم قال الذي يلون حملة العرش لحملة العرش ماذا قال ربكم ؟ فيخبرونهم ما قال فيستخبر بعض أهل السماوات بعضا حتى يبلغ هذه السماء الدنيا فيخطف الجن السمع فيقذفون إلى أوليائهم ويرمون فما جاؤوا به على وجهه فهو حق ولكنهم يقرفون فيه ويزيدون . رواه مسلم .
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انصاری صحابہ میں سے ایک صحابی نے مجھ سے بیان کا کہ ایک دن رات کے وقت کچھ صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک ستارہ ٹوٹا اور اس کی تیز روشنی پھیل گئی یہ دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ تم زمانہ جاہلیت میں اس طرح ستارہ ٹوٹنے کو کیا کہتے تھے ؟ صحابہ نے عرض کیا ۔ حقیقت حال کو اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ہم تو یہ کہا کرتے تھے کہ آج کی رات کوئی بڑا آدمی پیدا کیا گیا ہے (یا کبھی یہ کہتے کہ) آج کی رات کوئی بڑا آدمی مر گیا ہے (یعنی ہم اس طرح ستارہ ٹوٹنے کو کسی بڑے اور اہم واقعے کی علامت سمجھا کرتے تھے ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ستارہ نہ تو کسی کی موت سے ٹوٹتا ہے اور نہ کسی کے پیدا ہونے سے بلکہ، حقیقت حال یہ ہے کہ ہمارا رب جس کا نام بابرکت ہے جس کو کوئی حکم جاری فرماتا ہے تو عرض الہٰی کو اٹھانے والے فرشتے تسبیح (یعنی سبحان اللہ، سبحان اللہ کا ورد کرنے لگتے ہیں ) پھر ان کی تسبیح کی آواز سن کر آسمان کے فرشتے تسبیح کرنے لگتے ہیں ، جو عرش اٹھانے والے فرشتوں کے قریب ہے یہاں تک کہ اس تسبیح کی آواز ایک دوسرے آسمان سے ہوتی ہوئے آسمان دنیا پر رہنے والے فرشتوں تک پہنچ جاتی ہے ، پھر وہ فرشتے جو عرش الہٰی کو اٹھانے والے فرشتوں سے قریب رہتے ہیں عرش کو اٹھانے والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے ؟ وہ فرشتے ان کو وہ بات بتاتے ہیں جو پروردگار نے فرمائی ہے، پھر اس بات کو ان سے دوسرے فرشتے دریافت کرتے اور ان سے اور فرشتے، یہاں تک کہ یہ سلسلہ آسمان دنیا پر رہنے والوں تک پہنچ جاتا ہے پھر اس کی سنی ہوئی بات کو جنات اچک لیتے ہیں یعنی وہ کان لگائے ایسی باتوں کے منتظر رہتے ہیں اور جب وہ چوری چھپے کوئی بات سن لیتے ہیں تو اس کو وہاں سے لے اڑتے ہیں ۔ اور اپنے دوستوں یعنی کاہنوں تک پہنچا دیتے ہیں ، چنانچہ ان جنات کو مارنے کے لئے ستارے پھینکے جاتے ہیں (لہٰذا ان ستاروں کے پھینکے جانے کا سبب یہ ہے نہ کہ وہ جس کا تم اعتقاد رکھتے ہو ، یعنی کسی کی موت یا پیدائش وغیرہ ) اس طرح کاہن اگر اس بات کو جو آسمان سے سنی گئی ہے ۔ اور جنات کے ذریعہ اس تک پہنچی ہے جوں کی توں (یعنی اس میں کوئی تصرف اور کمی بیشی کے بغیر ) بیان کریں تو وہ یقینا صحیح ثابت ہو گی ، (لیکن وہ کاہن ایسا نہیں کرتے بلکہ ) اس میں جھوٹی باتیں شامل کر دیتے ہیں اور ایک بات کی بہت سی باتیں بنا لیتے ہیں ۔" (مسلم ، )