مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ خواب کا بیان ۔ حدیث 553

عالم برزخ کی سیر سے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خواب

راوی:

وعن سمرة بن جندب قال كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا صلى أقبل علينا بوجهه فقال من رأى منكم الليلة رؤيا ؟ قال فإن رأى أحد قصها فيقول ما شاء الله فسألنا يوما فقال هل رأى منكم أحد رؤيا ؟ قلنا لا قال لكني رأيت الليلة رجلين أتياني فأخذا بيدي فأخرجاني إلى أرض مقدسة فإذا رجل جالس ورجل قائم بيده كلوب من حديد يدخله في شدقه فيشقه حتى يبلغ قفاه ثم يفعل بشدقه الآخر مثل ذلك ويلتئم شدقه هذا فيعود فيصنع مثله . قلت ما هذا ؟ قالا انطلق فانطلقنا حتى أتينا على رجل مضطجع على قفاه ورجل قائم على رأسه بفهر أو صخرة يشدخ بها رأسه فإذا ضربه تدهده الحجر فانطلق إليه ليأخذه فلا يرجع إلى هذا حتى يلتئم رأسه وعاد رأسه كما كان فعاد إليه فضربه فقلت ما هذا ؟ قالا انطلق فانطلقنا حتى أتينا إلى ثقب مثل التنور أعلاه ضيق وأسفله واسع تتوقد تحته نار فإذا ارتفعت ارتفعوا حتى كاد أن يخرجوا منها وإذا خمدت رجعوا فيها وفيها رجال ونساء عراة فقلت ما هذا ؟ قالا انطلق فانطلقنا حتى أتينا على نهر من دم فيه رجل قائم على وسط النهر وعلى شط النهر رجل بين يديه حجارة فأقبل الرجل الذي في النهر فإذا أراد أن يخرج رمى الرجل بحجر في فيه فرده حيث كان فجعل كلما جاء ليخرج رمى في فيه بحجر فيرجع كما كان فقلت ما هذا ؟ قالا انطلق فانطلقنا حتى انتهينا إلى روضة خضراء فيها شجرة عظيمة وفي أصلها شيخ وصبيان وإذا رجل قريب من الشجرة بين يديه نار يوقدها فصعدا بي الشجرة فأدخلاني دار أوسط الشجرة لم أر قط أحسن منها فيها رجال شيوخ وشباب ونساء وصبيان ثم أخرجاني منها فصعدا بي الشجرة فأدخلاني دار هي أحسن وأفضل منها فيها شيوخ وشباب فقلت لهما إنكما قد طوفتماني الليلة فأخبراني عما رأيت قالا نعم أما الرجل الذي رأيته يشق شدقه فكذاب يحدث بالكذبة فتحمل عنه حتى تبلغ الآفاق فيصنع به ما ترى إلى يوم القيامة والذي رأيته يشدخ رأسه فرجل علمه الله القرآن فنام عنه بالليل ولم يعمل بما فيه بالنهار يفعل به ما رأيت إلى يوم القيامة والذي رأيته في الثقب فهم الزناة والذي رأيته في النهر آكل الربا والشيخ الذي رأيته في أصل الشجرة إبراهيم والصبيان حوله فأولاد الناس والذي يوقد النار مالك خازن النار والدار الأولى التي دخلت دار عامة المؤمنين وأما هذه الدار فدار الشهداء وأنا جبريل وهذا ميكائيل فارفع رأسك فرفعت رأسي فإذا فوقي مثل السحاب وفي رواية مثل الربابة البيضاء قالا ذلك منزلك قلت دعاني أدخل منزلي قالا إنه بقي لك عمر لم تستكمله فلو استكملته أتيت منزلك . رواه البخاري . وذكر حديث عبد الله بن عمر في رؤيا النبي صلى الله عليه وسلم في المدينة في باب حرم المدينة .

" اور حضرت سمرہ ابن جندب کہتے ہیں ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (صبح کی ) نماز سے فارغ ہوتے تو اپنا چہرہ اقدس ہماری طرف متوجہ کرتے اور پوچھتے کہ آج کی رات تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے ؟ حضرت سمرہ کہتے ہیں کہ اگر ہم سے کسی نے خواب دیکھا ہوتا تو وہ اس کو بیان کرتا اور آپ اس کی وہ تعبیر فرما دیتے جو اللہ تعالیٰ الہام فرماتا ۔چنانچہ اپنے اپنے معمول کے مطابق ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے وہی سوال کیا اور فرما یا کہ کیا تم میں سے کسی شخص نے خواب دیکھا ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میں آج کی رات خواب دیکھا ہے (اور وہ یہ ) کہ دو شخص میرے پاس آئے اور میرے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر مجھے مقدس سر زمین ، ملک شام کی طرف لے چلے ، پس ایک جگہ پہنچ کر میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص میرے پاس آئے بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص اپنے ہاتھ میں لوہے کا آنکڑا لئے کھڑا ہے ، اور وہ پھر اس آنکڑے کو بیٹھے ہوئے شخص کے کلے میں ڈالتا ہے اور اس کو چیرتا ہے ، یہاں تک کہ اس کی گدی تک چیرتا چلا جاتا ہے ، پھر وہ دوسرے کلے کے ساتھ اس طرح کرتا ہے (یعنی اس کو بھی گدی تک چیر دیتا ہے ) جب وہ کلہ اپنی اصلی حالت پر آجاتا ہے تو پھر پہلے کی طرح وہی عمل کرتا ہے (یعنی وہ کلے کو چیرتا ہے اور جب وہ کلہ درست ہوجاتا ہے تو پھر چیرتا ہے غرضیکہ بار بار یہی عمل کرتا ہے اور یہ عمل جاری رہتا ہے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ میں نے (یہ مت پوچھئے کہ کیا ہو رہا ہے بلکہ آگے چلئے ابھی بہت عجائبات دیکھنے ہیں اس کی تعبیر معلوم ہوجائے گی ) چنانچہ ہم آگے چلے یہاں تک کہ ایک ایسی جگہ آئے جہاں ایک شخص چت پڑا ہوا تھا اور ایک شخص اس سرکے پاس اتنا بڑا پتھر لئے کھڑا تھا جس سے ہاتھ بھر جائے اور اس سے چت پڑے شخص کے سر کو کچلتا تھا ، چنانچہ جب وہ پتھر کو (کھینچ کر ) اس کے سر پر مارتا ہے تو پتھر سر کو کچل کر لڑھکتا ہوا دور چلا جاتا ( پھر وہ دوبارہ مارنے کی غرض سے) اس پتھر کو اٹھانے کے لئے جاتا اور جب لوٹ کر آتا تو اس کے پہنچنے سے پہلے ہی اس شخص کا سر درست ہوجاتا اور پھر وہ اس پر پتھر مارتا اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری تھا کہ اس کا سر درست ہوتا رہتا اور وہ اس پر پتھر مارتا رہتا میں نے (یہ دیکھ کر ) پوچھا کہ کیا ہورہاہے ؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ چلے چلئے ۔چنانچہ ہم آگے چلے یہاں تک کہ ایک ایسے گڑھے پر پہنچے جو تنور کی مانند تھا ۃ کہ اس کے اوپر کا حصہ تنگ تھا اور نیچے کا حصہ کشادہ تھا اور اس کے اندر آگ بھڑک رہی تھی جس آگ اوپر کی طرف بھڑکتی تو کچھ لوگ جو آگ کے اندر تھے (شعلوں کے ساتھ ) او پر آجاتے یہاں تک کہ اس گڑھے سے نکلنے کے قریب ہوجاتے اور جب شعلہ کا زور گھٹ جاتا تو وہ سب پھر اندر چلے جاتے میں نے دیکھا کہ اس آگ میں کئی مرد تھے اور کئی عورتیں تھیں اور سب ننگے تھے میں نے (یہ دیکھ کر ) پوچھا کہ کیا ہورہا ہے تو ان دونوں نے کہا کہ چلے چلئے چنانچہ ہم آگے چلے یہاں تک کہ ایک ایسی نہر پر پہنچے جو (پانی کے بجائے ) خون سے بھری ہوئی تھی ، نہر کے بیچ میں ایک شخص کھڑا ہوا تھا اور ایک شخص اس کے کنارے پر تھا جس کے آگے پتھر رکھے ہوئے تھے جب وہ شخص جو نہر کے بیچ میں تھا (آگے کنارے پر ) آیا اور چاہا کہ باہر نکل آئے تو اس شخص نے جو کنارے پر تھا اس کے منہ پر پتھر پھینک کر مارا جس سے وہ اپنی جگہ لوٹ گیا اور پھر اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہا کہ نہر کے اندر کا آدمی جب باہر نکلنے کا ارادہ کرتا تھا تو کنارے والا آدمی اس کے منہ پر پتھر مارتا اور اس کو اسی جگہ واپس کردیتا ہے میں نے (یہ دیکھ کر ) پوچھا کہ کیا ہورہا ہے ؟ تو ان دونوں نے کہا کہ چلے چلئے ۔چنانچہ ہم آگے چلے یہاں تک ایک سرسبز شاداب باغ کے پاس پہنچے اس باغ میں ایک بڑا درخت تھا اور اس کی جڑ پر ایک بوڑھا اور کچھ لڑکے (بیٹھے ) تھے پھر کیا دیکھتا ہوں کہ اس درخت کے پاس ایک اور شخص بھی ہے جس کے آگے آگ جل رہی ہے وہ اس کو جلا بھڑکا رہا تھا ، پھر وہ دونوں آدمی مجھ کو لے کر درخت پر چڑھے اور مجھ کو ایک ایسے گھر میں داخل کیا جو درخت کے بالکل درمیان تھا (اور یہ گھر اتنا اچھا تھا ، کہ ) میں نے کبھی بھی اس سے اچھا کوئی گھر نہیں دیکھا اس گھر میں کتنے ہی جوان بوڑھے ، مرد تھے ، کتنی ہی عورتیں اور کتنے اور کتنے ہی بچے تھے ، اس کے بعد وہ دونوں مجھ کو اس گھر سے نکال کر درخت کے اور اوپر لے گئے اور مجھ کو ایک ایسے گھر میں داخل کیا جو پہلے گھر سے بھی بہت اچھا اور افضل تھا اس میں بھی بوڑھے اور جوان آدمی موجود تھے اب میں نے ان دونوں آدمیوں سے کہا کہ آج کی رات تم نے مجھ کو خوب گھمایا پھر ایا لیکن میں نے جو کچھ دیکھا ہے اس کی حقیقت سے تو مجھ کو آگاہ کرو ؟ ان دونوں نے کہا کہ اچھا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاتے ہیں (پھر انہوں نے بیان کرنا شروع کیا کہ ) جس شخص کو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے دیکھا کہ اس کے کلے چیرے جارہے تھے وہ ایسا شخص ہے جو جھوٹا ہے ، جھوٹ بولتا ہے اور اس کی جھوٹی باتیں نقل وبیان کی جاتی ہیں ، جو دنیا میں چاروں طرف پھیلتی ہیں ، جن سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں چنانچہ اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جارہا ہے جو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے دیکھا اور اس کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا اور جس شخص کو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا تھا وہ ایسا شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن سکھایا تھا یعنی اس کو قرآنی علوم سیکھنے کی توفیق عطا فرمائی تھی لیکن وہ شخص اس ( قرآن سے ) بے نیاز ہو کر رات میں سوتا رہا اور دن میں قرآن کے مطابق عمل نہیں کیا ، چنانچہ اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جا رہا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے دیکھا اور اس کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا اور جن لوگوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تنور میں دیکھا ہے وہ زناکار ہیں اور جس شخص کو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے نہر میں دیکھا وہ سود خور ہے ( ان سب کو بھی اپنے کئے کی سزا مل رہی ہے اور قیامت تک یوں ہی ملتی رہے گی ) اور جس بوڑھے شخص کو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے درخت کی جڑ کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے پاس جو بچے ہیں وہ آدمیوں کی اولاد ہیں اور جو شخص درخت سے کچھ فاصلہ پر آگ جلا رہا ہے وہ دوزخ کا درغہ ہے اور درخت کے اوپر پہلا گھر جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) داخل ہوئے تھے وہ ( جنت میں عام ) مؤمنوں کا مکان ہے اور یہ گھر ( جو پہلے گھر سے اوپر واقع ہے ) شہداء کا مکان ہے میں جبرائیل ( علیہ السلام ) ہوں اور یہ جو میرے ساتھ ہیں میکائیل ( علیہ السلام ) ہیں اور ذرا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) اوپر سر اٹھائیے ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) فرماتے ہیں کہ ) میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر ( نہایت بلندی میں) ابر کی مانند کوئی چیز ہے ۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ تہ در تہ سفید ابر کی مانند کوئی چیز ہے ان دونوں نے کہا کہ یہ ابر کی مانند جو چیز آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) دیکھ رہے ہیں دراصل جنت میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا مکان ہے ۔ میں نے کہا کہ تو پھر تم لوگ مجھے چھوڑ دو تاکہ میں اپنے مکان میں چلا جاؤں ان دونوں نے کہا کہ ابھی تو آپ کی عمر باقی ہے جس کو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے پورا نہیں کیا ہے جب آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی عمر کو پورا کر لیں گے تو اپنے مکان میں چلے جائیں گے ۔ (بخاری )
اور حضرت عبداللہ ابن عمر کی وہ روایت جو مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب دیکھنے سے متعلق ہے وہ حرم مدینہ کے باب میں نقل کی جا چکی ہے ۔

تشریح
" رات میں سوتا رہا " یعنی اس شخص نے نہ تو ، رات میں قرآن کریم کی تلاوت کی اور نہ دن میں اس پر عمل کیا !یا تو قرآن پر عمل کرنے کا تعلق دن اور رات دونوں سے ہے اور رات میں اس کی تلاوت بھی اس پر عمل ہی کرنا ہے ، لیکن چونکہ عبادت گزار بندے عام طور پر قرآن کریم کی تلاوت رات ہی کو کرتے ہیں اس لئے اس کو رات کے ساتھ مخصوص کیا گیا ۔ اور چوں کہ زندگی کی زیادہ تر حرکت وعمل کا تعلق دن سے ہوتا ہے اور اس اعتبار سے قرآنی احکام یعنی اس کے امر ونواہی پر عمل کرنے کا تعلق زیادہ تر دن ہی سے ہوتا ہے اس لئے قرآن پر عمل کرنے کو ان کے ساتھ مخصوص کیا گیا ۔
ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم نعمت عطا فرمائی کہ اس کو قرآن کا علم دیا لیکن اس نے اس نعمت کی قدر نہ کی بایں طور کہ رات کے وقت اس کی تلاوت سے غافل ہو کر سو رہا اور یہ جیز بسا اوقات قرآن کو بھول جانے کا سبب بنتی ہے ۔ نیز اس نے قرآن کے اوامر نواہی پر عمل بھی نہیں کیا باوجودیکہ قرآن نازل ہونے کا اصل مقصد یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جائے اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ جو شخص قرآن پر عمل کرتا ہے وہ گویا ہمیشہ قرآن کی تلاوت کرتا ہے اگرچہ وہ حقیقت میں تلاوت نہ کرے اور جو ہمیشہ تلاوت کرتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا تو اس نے گویا قرآن کی کبھی تلاوت نہیں کی ۔
یحیی کہتے کہ " سوتا رہا " کا مطلب یہ ہے کہ اس نے قرآن کریم سے اعراض کیا اور بے نیازی اختیار کی لہذا جو شخص تلاوت کے بغیر اس طرح سوئے کہ اس میں اس کے اعراض کرنے اور بے نیازیبرتنے کو قطعادخل نہ ہو بلکہ محض غفلت و کوتاہی یا کسی مجبوری کا دخل ہو تو ایسا شخص مذکورہ وعید سے مستثنی ہوگا ۔
" اور یہ گھر شہداء کا مکان ہے " کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ " شہداء " سے مراد مؤمنین خاص ہیں جیسے انبیاء علیہ السلام اولیائ ، اور علماء کیوں کہ منقول ہے کہ علماء کی سیاہی شہداء کے خونوں پر غالب ہوگی۔
امام نووی فرماتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ہدایت واضح ہوتی ہے کہ امام کے لئے یہ مستحب ہے کہ نماز فجر میں اسلام پھیرنے کے بعد مقیدیوں سے متوجہ ہو یہ بھی مستحب ہے کہ وہ امام مقتدیوں سے خواب دریافت کرے اور یہ بھی مستحب ہے کہ تعبیر بیان کرنے والا خواب کی تعبیر دن کے ابتدائی حصے میں بیان کر دے تاکہ معاش روز گار میں مشغولیت کی وجہ سے ذہن متشر نہ ہو اور دل جمی کے ساتھ تعبیر دے سکے ۔

یہ حدیث شیئر کریں