خطوط میں سلام لکھنے کا طریقہ
راوی:
وعن أبي العلاء بن الحضرمي أن العلاء الحضرمي كان عامل رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان إذا كتب إليه بدأ بنفسه . رواه أبو داود .
" اور حضرت ابوالعلاء حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ علاء حضرمی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عامل مقرر تھے جب وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خط لکھتے تو اپنی طرف سے شروع کرتے۔ ابوداؤد)
تشریح
ابوالعلاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اصل نام یزید ابن عبد ہے ۔ مشکوۃ کے بعض نسخوں میں اس روایت کے راوی کا نام ابوالعلاء ہی لکھا ہے یعنی یوں ہے عن ابی العلاء حضرمی ان العلاء الحضرمی اور بعض نسخوں میں مصابیح کے بعض نسخوں کے مطابق ابن علاء لکھا ہے یعنی یوں ہے ۔عن ابن العلاء الحضرمی ان العلاء الحضرمی ، حضرمی اصل میں مشہور شہر حضرت موت کی طرف نسبت ہے کیونکہ حضرت علاء حضر موت کے رہنے والے تھے اور مشکوۃ کے اکثر نسخوں میں آگے کی عبارت ان العلاء الحضرمی ہے لیکن ایک نسخہ میں ان العلاء الحضرمی لکھا ہوا ہے۔
" تقریب میں لکھا ہے کہ حضرت علاء بنو امیہ کے حلیف تھے یہ ایک جلیل القدر اور بزرگ صحابی ہیں۔ نبی کریم نے ان کو بحرین کا عامل مقرر کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے دور خلافت میں ان کو وہاں کا عامل باقی رہا اور اسی عہدے پر ان کا انتقال ہوا۔
" اپنی طرف سے شروع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خط کی ابتداء ان الفاظ سے کرتے ، من العلاء الحضرمی الی رسول اللہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ (یعنی علاء حضرمی کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں السلام علیکم ورحمۃ اللہ ) اس عبارت کے بعد خط کا مضمون ہوتا اور حضرمی خط لکھنے کا یہ طریقہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں اختیار کرتے تھے کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوبات گرامی کی ابتداء اسی طرح ہوتی تھی۔ من محمد رسول اللہ الی فلاں اس عبارت کے بعد سلام کے الفاظ ہوتے تھے اگر مکتوب الیہ مسلمان ہوتا تو اس کا مخاطب خاص طور پر اسی کو بنایا جاتا یعنی سلام علیک جیسے الفاظ ہوتے اور اگر مکتوب الیہ مسلمان ہوتا تو پھر علی العموم سلام کے الفاظ ہوتے یعنی یوں لکھتے سلام علی من اتبع الھدی۔ (جو شخص راہ راست کی پیروی کرے اس پر سلامتی ہو) سلام کے بعد اصل مضمون ہوتا چنانچہ نبی نے ہرقل کو جو مکتوب ارسال کیا تھا وہ اسی ترتیب کے ساتھ لکھا گیا نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کے بیٹے کی تعزیت میں جو خط بھیجا تھا اس کے ابتدائی الفاظ یوں تھے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم، من محمد رسول اللہ الی معاذ بن جبل سلام علیک فانی احمد الیک اللہ الذی لاالہ الاھو، اما بعد الخ۔ ۔ یہ حدیث جو یہاں نقل کی گئی ہے بظاہر باب کے موضوع سے تعلق نہیں رکھتی لیکن یہ حدیث چونکہ سلام کے مقد کی حثییت رکھتی ہے جیسا کہ بیان کیا گیا ہے اس لئے یہ اس باب میں نقل کی گئی ہے اسی طرح آگے جو تین حدیثیں آ رہی ہیں جن میں خط سے متعلق کچھ باتیں بیان کی گئی ہیں چونکہ ان کا تعلق بھی بایں اعتبار سلام سے ہے کہ سلام جس طرح زبانی پیش کیا جاتا ہے اسی طرح وہ خط میں بھی لکھا جاتا ہے لہذا ان حدیثوں کو بھی اس باب میں نقل کیا گیا ہے اور مشکوۃ کے مولف کا یہ محمول بھی ہے کہ وہ فصل کے آخر میں ان احادیث کو بھی نقل کرتے ہیں جو اگرچہ براہ راست باب سے تعلق نہیں رکھتیں لیکن باب اور اس کے موضوع کے مناسب اور بالواسطہ طور پر تعلق رکھنے والی ضرور ہوتی ہے۔