خط لکھ کر اس پر مٹی چھڑکنے کی خاصیت
راوی:
وعن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال إذا كتب أحدكم كتابا فليتر به فإنه أنجح للحاجة . رواه الترمذي وقال هذا حديث منكر .
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی کو خط لکھے تو چاہیے کہ وہ خط لکھنے کے بعد اس پر مٹی ڈال دے یا مٹی چھڑک کر جھاڑ دے کیونکہ یہ چیز حاجت براری کے لئے بہت کارآمد ہے ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے۔
تشریح
کاغذ وغیرہ پر لکھنے کے بعد مٹی چھڑکنا بڑا قدیم طریقہ ہے اور عام طور پر اس کا مقصد روشنائی کو خشک کرنا سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ طریقہ حاجت براری کے لئے ایک مخصوص تاثیر رکھتا ہے اور یہ تاثیر بلخاصیت ہے کہ اس کا سبب شارع کے علاوہ اور کسی کو معلوم نہیں ہے تاہم بعض عارفین نے پہلے معنی یعنی مٹی ڈال دے کی وضاحت میں لکھا ہے کہ ایسا کرنا دراصل اپنے لکھے ہوئے پر خاک ڈالنے کے مفہوم کے مترادف ہے بایں طور کہ اس فعل سے ظاہر کیا جاتا ہے کہ اپنے مقصد و حاجت کے لئے نہ تو اپنے اس مکتوب پر اعتبار ہے اور نہ مکتوب الیہ کو حقیقی حاجت روا کا درجہ دینا مقصود ہے بلکہ حقیقی اعتماد اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہے کہ وہی مقصد کو پورا کرنے اور حاجت برلانے والا ہے لہذا یہ مکتوب محض اظہار حال کا ایک ظاہری ذریعہ ہے حقیقی درخواست تو صرف اللہ تعالیٰ سے ہے۔
" یا مٹی چھڑک کر جھاڑ دے" یہ فلیتربہ کا دوسرا ترجمہ ہے اور یہ ترجمہ اس اعتبار سے ہے کہ مٹی ڈالنے کی صورت میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ مٹی کسی دوسرے کی ملکیت سے متعلق ہو اور اس طرح مالک کی اجازت کے بغیر اس کی چیز کو صرف کرنا لازم آئے جب کہ مٹی چھڑ کر جھاڑ دینے میں اس طرح کی کوئی بات لازم نہیں آتی چنانچہ اس دوسرے ترجمہ کی تائید اور اس قصے سے بھی ہوتی ہے جس کو امام غزالی نے منہاج العابدین میں نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے جو کسی کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر تھا ایک پر چہ لکھا پھر جب اس نے یہ چاہا کہ مکان کی دیوار سے تھوڑی سے مٹی لے کر پر چہ پر ڈالے تو اس کو خیال ہوا کہ یہ مکان کرایہ کا ہے اور اس کی دیوار سے مٹی لے کر صرف کرنا غیر مناسب ہے لیکن معا دل میں دوسراخیال یہ بھی آیا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے چنانچہ اس نے مٹی لے کر پر چہ پر ڈال دی اس کے اس نے یہ غیبی ندا سنی کہ کوئی کہہ رہا ہے اس مٹی کو حلال جاننے والا جلدی ہی اس چیز کو جان لے گا جو کل کے دن یعنی روز حشر طویل حساب کے سبب اس کو پیش آنے والی ہے۔ یہ حدیث راویوں کے اعتبار سے منکر ہے اس کے مضمون میں کوئی کلام نہیں ہے چنانچہ طبرانی نے اوسط میں بطریق مرفوع حضرت ابوداؤد سے یہ روایت نقل کی ہے کہ اذا کتب احدکم الی انسان فلیدا بنفسہ واذا کتب فلیترب کتابہ فھو انجح۔ یعنی جب تم میں سے کوئی شخص کسی آدمی کو خط لکھے تو چاہیے کہ اس کو اپنی طرف سے شروع کرے اور جب اس خط کو لکھ لے تو اس پر مٹی چھڑک دے کیوں کہ یہ چیز حاجت براری کے لئے بہت کارآمد ہے۔ حقیقی درخواست تو صرف اللہ تعالیٰ سے ہے۔