سونے کے عوض میں چاندی کی شکل میں ادائیگی کی رخصت۔
راوی:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كُنْتُ أَبِيعُ الْإِبِلَ بِالْبَقِيعِ فَأَبِيعُ بِالدَّنَانِيرِ وَآخُذُ الدَّرَاهِمَ وَأَبِيعُ بِالدَّرَاهِمِ وَآخُذُ الدَّنَانِيرَ وَرُبَّمَا قَالَ أَقْبِضُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ رُوَيْدَكَ أَسْأَلُكَ إِنِّي أَبِيعُ الْإِبِلَ بِالْبَقِيعِ فَأَبِيعُ بِالدَّنَانِيرِ وَآخُذُ الدَّرَاهِمَ وَأَبِيعُ بِالدَّرَاهِمِ وَآخُذُ الدَّنَانِيرَ قَالَ لَا بَأْسَ أَنْ تَأْخُذَ بِسِعْرِ يَوْمِكَ مَا لَمْ تَفْتَرِقَا وَبَيْنَكُمَا شَيْءٌ
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے بقیع میں اونٹ فروخت کئے میں نے انہیں دیناروں کے عوض میں فروخت کیا تھا لیکن معاوضے میں درہم وصول کرلیے اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ میں نے درہم کے عوض میں فروخت کیا اور دینار وصول کرلیے (اس روایت کے الفاظ میں اختلاف ہے) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے انہیں قبضے میں لیا اور پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی یا رسول اللہ میں آپ سے ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں میں نے بقیع میں اونٹ فروخت کئے ہیں میں نے انہیں دینار کے عوض میں فروخت کیا ہے اور معاوضے میں درہم وصول کئے یا درہم کے عوض میں فروخت کیا تھا اور معاوضے میں دینار وصول کرلیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں ہے اگر تم نے آج کے سودے میں خریداہے جب تک تم دونوں فریق جدا نہ ہوئے ہو اور تمہارے درمیان کوئی اور شرط نہیں تھی۔ (یا قیمت کی ادائیگی باقی نہ رہ گئی تو اس میں کوئی حرج نہیں۔