سلام نہ کرنا بخل ہے
راوی:
وعن جابر قال أتى رجل النبي صلى الله عليه وسلم فقال لفلان في حائطي عذق وإنه آذاني مكان عذقه فأرسل النبي صلى الله عليه وسلم أن بعني عذقك قال لا . قال فهب لي . قال لا . قال فبعنيه بعذق في الجنة ؟ فقال لا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما رأيت الذي هو أبخل منك إلا الذي يبخل بالسلام . رواه أحمد والبيهقي في شعب الإيمان .
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میرے باغ میں فلاں شخص کا کھجور کا درخت ہے اور صورت حال یہ ہے کہ وہاں اس درخت کے ہونے سے مجھے تکلیف پہنچتی ہے کیونکہ وہ شخص اپنے اس درخت کی وجہ سے وقت بے وقت میرے باغ میں آتا جاتا ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو اس شخص کے پاس بھیجا تاکہ اس کو بلائے جب وہ آیا تو آپ نے فرمایا کہ تم اپنا کھجور کا درخت میرے ہاتھ فروخت کر دو، اس نے کہا کہ میں فروخت نہیں کرتا، آپ نے فرمایا کہ اگر اس درخت کو بیچنے میں تمہیں کوئی عار محسوس ہوتا ہے تو اس کو میرے نام ہبہ کر دو۔ اس نے کہا میں ہبہ بھی نہیں کرتا آپ نے فرمایا اچھا اس درخت کو تم میرے ہاتھ کھجور کے ایسے درخت کے عوض فروخت کر دو جو تمہیں جنت میں ملے اس نے کہا میں اس طرح بھی فروخت نہیں کرتا آپ نے فرمایا میں نے تم سے بڑا بخیل کسی شخص کو نہیں دیکھا علاوہ اس شخص کے جو سلام کرنے میں بخل کرتا یعنی سلام کے معاملہ میں کوتاہی کرنے والا شخص تم سے بھی بڑا بخیل ہے کہ وہ اتنا ذرا سا کام کر کے بھی زیادہ ثواب حاصل نہیں کرنا چاہتا۔ (احمد ، بہیقی )
تشریح
علماء نے لکھا ہے کہ نبی نے اس شخص سے جو کچھ فرمایا بطریق شفارش تھا حکم کے طور پر نہیں تھا اگر آپ حکم کے طور پر فرماتے تو وہ انکار کرنے کی ہرگز جرات نہ کرتا کیونکہ وہ بہرحال مسلمان تھا اور مسلمان ہونے کی حثییت سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم سے برملا انکار کسی صورت میں نہیں کر سکتا تھا، ہاں اگر وہ مسلمان نہ ہوتا تو حکم نبوی سے اس کا انکار کرنا کوئی تعجب خیز نہ ہوتا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ تم اس درخت کو جنت کے کھجور کے درخت کے بدلے میرے ہاتھ فروخت کر دو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ یقینا مسلمان تھا تاہم سختی طبع سے خالی نہیں تھا۔