مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 604

کسی دروازے پر پہنچ کر اپنی آمد کی اطلاع کرو تو نام بتاؤ۔

راوی:

وعن جابر قال أتيت النبي صلى الله عليه وسلم في دين كان على أبي فدققت الباب فقال من ذا ؟ فقلت أنا . فقال أنا أنا . كأنه كرهها .

" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں ایک قرض کے معاملہ میں جو میرے باپ پر تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اپنی آمد کی اطلاع دینے کے لئے دروازے کو کھٹکھٹایا، آپ نے اندر سے پوچھا کون ہے؟ میں نے کہا میں ہوں، آپ نے یہ سن کر فرمایا کہ میں ہوں، میں ہوں، گویا آپ نے میرے اس طرح جواب دینے کو برا سمجھا۔ (بخاری ، مسلم)

تشریح
قرض کا وہ معاملہ جس سلسلے میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے یہ تھا کہ ان کے والد حضرت عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ احد میں شہید ہو گئے تھے اور اپنے ذمہ کچھ قرض چھوڑ گئے تھے، جب قرض خواہوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کیا اور ان کو تنگ کرنا شروع کر دیا تو وہ مدد چاہنے کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ اس قرض کی ادائیگی کا کوئی انتظام ہو اور قرض خواہوں سے نجات مل جائے اس وقت حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملکیت میں تھوڑی سی کھجوروں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا لیکن اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ظاہر ہوا کہ ان کھجوروں میں برکت ہوئی اور اتنی برکت ہوئی کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کھجوروں سے پورا قرض ادا کر دیا اور اس کے بعد بھی وہ جوں کی توں باقی رہیں ان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
" میں ہوں" کہنے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے برا سمجھا کہ اس جملہ کے ذریعہ ابہام کا ازالہ نہیں ہوتا اور صاحب خانہ پر یہ واضح نہیں ہوتا کہ یہ کون شخص ہے گویا یہ کہنے سے اس صورت میں صاحب خانہ کا یہ سوال کہ کون ہے جوں کا توں باقی رہتا ہے لہذا حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چاہیے تھا کہ وہ نام لقب، یا کنیت بتاتے تاکہ یہ معلوم ہو جاتا کہ باہر دروازے پر کون شخص ہے اگرچہ بعض اوقات محض آواز پہچان لینے سے بھی شخصیت واضح ہو جاتی ہے خاص طور سے اس صورت میں جب کہ میں ہوں کہنے والا شخص ایسا ہو جس کے ساتھ ہر وقت اٹھنا بیٹھنا ہو یا اس سے راہ و رسم ہو، چنانچہ ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میں ہوں کی آواز سے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز کو پہچان لیا ہو گا مگر اس کے باوجود آپ نے اپنی ناگواری کا اظہار حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس ادب کی تعلیم کے طور پر کیا کہ کسی کے دروازے پر پہنچ کر اپنی آمد کی اطلاع دو صاف طرح سے اپنا نام بتاؤ محض یہ کہنے پر اکتفا نہ کرو کہ " میں ہوں۔ یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس طرح کہنے کو اس لئے برا سمجھا کہ انہوں نے سلام کرنے کے ذریعہ اجازت حاصل کرنے کے طریقہ کو ترک کیا جو مسنون ہے۔
آنحضرت کا میں ہوں، میں ہوں، دو بار کہنا حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس جواب کو قبول کرنے سے انکار کے طور پر تھا اور اس کا مفہوم گویا یوں تھا کہ میں ہوں میں ہوں کیا کہتے ہو، اپنا نام کیوں نہیں بتاتے۔

یہ حدیث شیئر کریں