مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 605

بلانے والے کے دروازے پر بھی رک کر اندر آنے کی اجازت مانگنی چاہیے۔

راوی:

وعن أبي هريرة قال دخلت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجد لبنا في قدح . فقال أبا هر الحق بأهل الصفة فادعهم إلي فأتيتهم فدعوتهم فأقبلوا فاستأذنوا فأذن لهم فدخلوا .

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے گھر میں داخل ہوا تو آپ نے گھر میں ایک دودھ کا پیالہ رکھا ہوا پایا آپ نے مجھ سے فرمایا کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل صفہ کے پاس جاؤ اور ان کو میرے پاس بلا لاؤ چنانچہ میں ان کے پاس جا کر ان کو بلا لایا جب وہ لوگ آئے تو دروازے پر رک کر اندر آنے کی اجازت چاہی آپ نے ان کو اجازت دی تو وہ اندر آ گئے۔ (بخاری، مسلم)

تشریح
ایک دوسری حدیث میں یہ بھی منقول ہے کہ اہل صفہ اندر آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے دودھ کا وہ پیالہ پیش کیا اور آپ کے معجزہ کے سبب سے ان سب نے اس پیالہ کے دودھ کو خوب سیر ہو کر پیا۔ واضح رہے کہ اہل صفہ ان صحابہ کی جماعت کو کہا جاتا تھا جو مدینہ میں نہ تو گھر بار رکھتی تھی اور نہ کوئی سلسلہ معاش بلکہ اپنے فقر و افلاس کے ساتھ مسجد نبوی کے باہر ایک چبوترہ پر جمع رہتی تھی اور ہمہ وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر رہ کر اکتساب فیض کرتی تھی ان صحابہ کا تعلق انصار سے بھی تھا اور مہاجرین سے بھی یوں تو مدینہ کے عام مسلمان اپنی حثییت و استطاعت کے مطابق ان کے کھانے پینے کا انتظام کرتے رہتے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود اکثر و پیشتر ان سب کو اپنے پاس سے کھلاتے پلاتے تھے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کو بلانا، اجازت حاصل کرنے کو ساقط نہیں کرتا یعنی اگر کوئی شخص کسی کے بلانے پر اس کے گھر جائے تو اس کو بھی چاہیے کہ وہ دروازہ پر آ کر پہلے اجازت طلب کرے اور پھر گھر اندر جائے الاّ یہ کہ بلانے اور آنے میں زیادہ وقت کا فرق نہ ہو۔ آگے حدیث آ رہی ہے جس میں فرمایا گیا کہ جب تم میں سے کسی شخص کو بلایا جائے اور وہ شخص اس کے ہمراہ آ جائے جو بلانے گیا تھا تو اس کے ساتھ آنا ہی اس کے لئے اجازت ہے یعنی اس کو اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے چونکہ بظاہر یہ حدیث مذکورہ بالا حدیث میں مطابقت نہیں رکھتی اس لئے ان دونوں کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے علماء نے لکھا ہے کہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ بلا کر لانے والے ساتھ آنے کی صورت میں اجازت ہے یعنی اس کو اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے چونکہ بظاہر یہ حدیث مذکورہ بالا حدیث سے مطابقت نہیں رکھتی اس لئے ان دونوں کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے علماء نے لکھا ہے کہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ بلا کر لانے والے کے ساتھ آنے کی صورت میں اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی چنانچہ اہل صفہ نے اسی لئے اجازت چاہی تھی کہ وہ لوگ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہی چلے آتے تو ان کو اجازت حاصل کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی یا یہ کہ وہ لوگ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہی ساتھ آئے تھے اس صورت میں ان کو اجازت حاصل کرنے کی ضرورت یا حاجت نہیں تھی لیکن چونکہ ان لوگوں پر ادب حیاء کا انتہائی غلبہ تھا اس لئے ان لوگوں نے اجازت حاصل کرنا ہی بہتر سمجھا یا ان لوگوں کو وہاں کوئی ایسی چیز محسوس ہوئی ہوگی جو اجازت حاصل کرنے کی مقتضی تھی یا یہ کہ ان لوگوں کو یہ حدیث ہی نہیں پہنچی ہو گی اس لئے انہوں نے اجازت حاصل کی۔ و اللہ اعلم۔

یہ حدیث شیئر کریں