مصافحہ اور معانقہ کے احکام
راوی:
باہمی ملاقات کے وقت مصافحہ کرنا سنت ہے نیز دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا چاہیے محض ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا غیر مسنون ہے کسی خاص موقع پر یا کسی خاص تقریب کے وقت مصافحہ ضروری سمجھنا غیر شرعی بات ہے چنانچہ بعض مقامات پر جو یہ رواج ہے کہ کچھ لوگ عصر کی نماز یا جمعہ کے بعد ایک دوسرے کو مصافحہ کرتے ہیں اس کی کوئی اصل نہیں ہے اور ہمارے علماء نے تصریح کی ہے کہ تخصیص وقت کے سبب اس طرح کا مصافحہ کرنا مکروہ ہے اور بدعت مذمومہ ہے ہاں اگر کوئی شخص مسجد میں آئے اور لوگ نماز میں مشغول ہوں یا نماز شروع کرنے والے ہوں اور وہ شخص نماز ہو جانے کے بعد ان لوگوں سے مصافحہ کرے تو یہ مصافحہ بلاشبہ مسنون مصافحہ ہے بشرطیکہ اس نے مصافحہ سے پہلے سلام بھی کیا ہو تاہم یہ واضح رہے کہ اگرچہ کسی متعین اور مکروہ وقت میں مصافحہ کرنا مکروہ ہے لیکن اگر کوئی شخص اس وقت مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھائے تو اس کی طرف سے ہاتھ کھینچ لینا اور اس طرح بے اعتنائی برتنا مناسب نہیں ہوگا کیونکہ اس کی وجہ سے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھانے والے شخص کو دکھ پہنچے گا اور کسی مسلمان کو دکھ نہ پہنچانا آداب کی رعایت سے زیادہ اہم ہے۔ جوان عورت سے مصافحہ کرنا حرام ہے اور اس بوڑھی عورت سے مصافحہ کرنے سے کوئی مضائقہ نہیں ہے جس کی طرف جنسی جذبات مائل نہ ہو سکتے ہوں چنانچہ منقول ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دور خلافت میں ان بوڑھیوں سے مصافحہ کرتے تھے جن کا انہوں نے پیا تھا اسی طرح وہ بڈھا مرد جو جنسی جذبات کی فتنہ خیزیوں سے بے خوف ہو چکا ہو اس کو جوان عورت سے مصافحہ کرنا جائز ہے، عورت کی طرح خوش شکل مرد سے بھی مصافحہ کرنا جائز نہیں ہے ۔ واضح رہے کہ جس کو دیکھنا حرام ہے اس کو چھونا بھی حرام ہے بلکہ چھونے کی حرمت دیکھنے کی حرمت سے زیادہ سخت ہے جیسا کہ مطالب المومنین میں مذکور ہے۔
صلوۃ مسعودی میں لکھا ہے کہ جب کوئی شخص سلام کرے تو اپنا ہاتھ بھی دے یعنی مصافحہ کے لئے ہاتھ دینا سنت ہے لیکن مصافحہ کا یہ طریقہ ملحوظ رہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھے محض انگلیوں کے سروں کو پکڑنے پر اکتفا نہ کرے کیوں کہ محض انگلیوں کے سروں کو پکڑنا مصافحہ کا ایسا طریقہ ہے جس کو بدعت کہا گیا ہے۔ معانقہ یعنی ایک دوسرے کو سینے سے لگانا مشروع ہے خاص طور سے اس وقت جب کہ کوئی شخص سفر سے آیا ہو جیسا کہ حضرت جعفر بن ابی طالب کی حدیث منقول ہے کہ لیکن اس کی اجازت اسی صورت میں ہے جب کہ اس کی وجہ سے کسی برائی میں مبتلا ہو جانے یا کسی شک وشبہ کے پیدا ہو جانے کا خوف نہ ہو۔ حضرت امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے بارے میں منقول ہے کہ یہ دونوں حضرات معانقہ اور تقبیل یعنی ہاتھ کو منہ اور آنکھوں کے ذریعہ چومنے کی کراہت کے قائل ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ معانقہ کے بارے میں نہی (ممانعت) منقول ہے چنانچہ فصل اول میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے یہ نہی ثابت ہوتی ہے یہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ جن روایتوں سے معانقہ کی اجازت ثابت ہوتی ہے ان کا تعلق اس زمانہ سے ہے جب کہ معانقہ کو ممنوع نہیں قرار دیا گیا تھا بہرحال اس سلسلے میں جو احادیث منقول ہیں اور جن کے درمیان بظاہر اختلاف نظر آتا ہے کہ بعض سے ممانعت کی اجازت ثابت ہوتی ہے اور بعض معانقہ کا تعلق محبت و اکرام کے جذبہ سے ہو وہ بلاشک و شبہ جائز ہے بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ معانقہ کے بارے میں فقہاء کے درمیان جو اختلاف ہے وہ اس صورت میں ہے جب کہ جسم پر کپڑے نہ ہوں بدن پر قمیص و جبہ وغیرہ ہونے کی صورت میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ بالااتفاق جائز ہے۔ تقبیل یعنی ہاتھ یا پیشانی وغیرہ چومنا بھی جائز ہے بلکہ بزرگان دین اور متبعین سنت علماء کے ہاتھ پر بوسہ دینے کو بعض حضرات نے مستحب کہا ہے لیکن مصافحہ کے بعد خود اپنا ہاتھ چومنا کچھ اصل نہیں رکھتا بلکہ یہ جاہلوں کا طریقہ ہے اور مکروہ ہے۔
امرائے سلطنت اور علماء مشائخ کے سامنے زمین بوسی کرنا حرام ہے زمین بوسی کرنے والا اس زمین بوسی پر راضی ہونے والا دونوں ہی گناہگار ہوتے ہیں۔فقیہ ابوجعفر کہتے ہیں کہ سلطان و حاکم کے سامنے زمین بوسی اور سجدہ کرنے والا کافر ہو جاتا ہے بشرطیکہ اس کی زمین بوسی و سجدہ عبادت کی نیت نہ ہونے کی صورت میں بھی کافر ہو جاتا ہے واضح رہے کہ اکثر علماء کے نزدیک زمین بوسی کرنا، زمین پر ما تھا ٹیکنے یا رخسارہ رکھنے سے ہلکا فعل ہے۔علماء نے لکھا ہے کہ کسی عالم یا سلطان و حاکم کے ہاتھ کو چومنا ان کے علم و انصاف کی بناء پر اور دین کے اعزاز و اکرام کے جذبہ سے ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اور اگر ان کے ہاتھ چومنے کا تعلق کسی دنیاوی غرض و منفعت سے ہو تو سخت مکروہ ہوگا اگر کوئی شخص کسی عالم یا کسی بزرگ سے اس کا پیر چومنے کی درخواست کرے تو اس کو ہرگز نہیں ماننا چاہیے بچوں کو بوسہ سے پیار کرنے کی اجازت ہے اگرچہ غیر کا بچہ ہو بلکہ وہاں طفل پر بوسہ دینا مسنون ہے۔
علماء نے لکھا ہے کہ جو بوسہ شرعی طور پر جائز ہے اس کی پانچ صورتیں ہیں ایک تو مودت و محبت کا بوسہ جیسے والدین کا اپنے بچہ کے رخسار کو چومنا، دوسرے احترام و اکرام اور رحمت کا بوسہ، جیسے اولاد کا اپنے والدین کے سر پر بوسہ دینا، تیسرے جنسی جذبات کے تحت بوسہ دینا جیسے شوہر کا بیوی کے چہرہ پر بوسہ لینا، چوتھے تحیۃ سلام کا بوسہ جیسے مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ہاتھ چومنا، اور پانچویں وہ بوسہ جو بہن اپنے بھائی کی پیشانی کا لیتی ہے ۔ بعض حضرات کے نزدیک آپس میں ایک دوسرے کے ہاتھ اور چہرہ کا بوسہ دینا مکروہ ہے بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ چھوٹے بچے کا بوسہ لینا واجب ہے۔ امام نووی نے یہ لکھا ہے کہ شوہر بیوی کے علاوہ کسی اور جنسی جذبات کے تحت بوسہ لینا بالاتفاق حرام ہے خواہ وہ باپ ہو یا کوئی اور دوسرا۔