ملی ہوئی چیزکا حکم۔
راوی:
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ عَنْ عَمْرٍو وَعَاصِمٍ ابْنَيْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبِيعَةَ الثَّقَفِيِّ أَنَّ سُفْيَانَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ وَجَدَ عَيْبَةً فَأَتَى بِهَا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقَالَ عَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنْ عُرِفَتْ فَذَاكَ وَإِلَّا فَهِيَ لَكَ فَلَمْ تُعْرَفْ فَلَقِيَهُ بِهَا فِي الْعَامِ الْمُقْبِلِ فِي الْمَوْسِمِ فَذَكَرَهَا لَهُ فَقَالَ عُمَرُ هِيَ لَكَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنَا بِذَلِكَ قَالَ لَا حَاجَةَ لِي بِهَا فَقَبَضَهَا عُمَرُ فَجَعَلَهَا فِي بَيْتِ الْمَالِ
سفیان کے دو صاحبزادے عمرو اور عاصم بیان کرتے ہیں حضرت سفیان بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو ایک تھیلی ملی وہ اسے لے کر حضرت عمر کے پاس آئے حضرت عمر نے ہدایت کی کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتے رہو اگر اس کی شناخت ہوجائے تو ٹھیک ہے ورنہ یہ تمہاری ہوئی۔ اتنے عرصے کے تک کوئی شناخت نہ ہوئی اگلے سال حج کے موقع پر سفیان بن عبداللہ رضی اللہ عنہ پھر اس تھیلی کے ہمراہ حضرت عمر کے پاس حاضر ہوئے اور اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فرمایا یہ تمہاری ہوئی کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بات کی ہدایت کی ہے۔ سفیان کہتے ہیں مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے حضرت عمر نے اس تھیلی کو اپنے قبضے میں کرلیا اور اسے بیت المال میں جمع کردیا۔