بارگاہ نبوت میں عکرمہ ابن ابوجہل کی حاضری کا راز
راوی:
وعن عكرمة بن أبي جهل قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم جئته مرحبا بالراكب المهاجر . رواه الترمذي .
" اور حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن ابوجہل کہتے ہیں اس دن جب کہ میں اسلام قبول کرنے کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا اللہ اور رسول کی طرف یا دارالحرب سے دارالسلام کی طرف ہجرت کرنے والے سوار کو خوش آمدید۔ (ترمذی)
تشریح
سیوطی نے جمع الجوامع میں حضرت مصعب بن عبداللہ سے نقل کیا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عکرمہ اور ابن ابوجہل کو اپنے پاس آتے ہوئے دیکھا تو کھڑے ہو گئے اور چل کر ان کے پاس پہنچے اور پھر ان کو گلے سے لگایا اور فرمایا کہ مرحبا بالراکب المہاجر۔ حضرت عکرمہ اسلام قبول کرنے سے پہلے اپنے باپ ابوجہل کی طرح سے سخت عداوت رکھتے تھے اور اسلام کے خلاف ہر معرکہ آرائی میں پیش پیش رہتے تھے ان کا خاص وصف شہ سواری تھا جس میں بڑے مشہور تھے اور بڑے جیالے سوار جاتے تھے فتح مکہ کے دن جب اسلام دشمن عناصر کی طاقت آخری طور پر ٹوٹ کر چور چور ہو گئی اور اس خطہ مقدس پر اللہ کے نام لیواؤں کا مکمل تسلط و غلبہ ہو گیا تو یہ عکرمہ بھی مکہ سے فرار ہو کر یمن پہنچے پھر ان کی بیوی ام حکیم بنت حارث ان کے پاس یمن گئیں اور ان کو اپنے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائیں اور انہوں نے آپ کے سامنے اپنی گزشتہ تقصیرات پر ندامت کا اظہار کیا اور معافی اور بخشش کے طلب گار ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا اور حسن اسلام کی ایسی دولت نصیب ہوئی کہ قابل رشک بن گئے یہاں تک کہ اللہ کے دین کا جھنڈا سر بلند رکھنے کے لئے اپنی جان تک قربان کر دی اور جنگ یرموک میں شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئے۔ یاد رہے اس حدیث میں سفر سے آنے والے کو خوش آمدید کہنے کا ذکر ہے اور خوش آمدید کہنا مصافحہ سے ایک طرح کی مناسبت رکھتا ہے اس اعتبار سے اس حدیث کو یہاں مصافحہ کے باب میں نقل کیا گیا ہے۔