مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 622

بارگاہ نبوت میں عکرمہ ابن ابوجہل کی حاضری کا راز

راوی:

وعن أسيد بن حضير رجل من الأنصار قال بينما هو يحدث القوم وكان فيه مزاح بينا يضحكهم فطعنه النبي صلى الله عليه وسلم في خاصرته بعود فقال أصبرني . قال اصطبر . قال إن عليك قميصا وليس علي قميص فرفع النبي صلى الله عليه وسلم عن قميصه فاحتضنه وجعل يقبل كشحه قال إنما أردت هذا يا رسول الله . رواه أبو داود .

" اور حضرت اسید بن حضیر جو انصار میں سے تھے کے بارے میں راوی کہتے ہیں کہ ایک دن اس وقت جب کہ اسید لوگوں سے باتیں کر رہے تھے اور ان کے مزاج میں جو خوش طبعی وظرافت تھی اس کے تحت لوگوں کو ہنسا رہے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے از راہ مذاق ان کے پہلو میں ایک لکڑی سے ٹھوکا دیا انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مجھے اس ٹھوکا دینے کا بدلہ دیجیے آپ نے فرمایا کہ لو مجھ سے بدلہ لو۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے جسم پر کپڑا ہے اور میرے جسم پر کپڑا نہیں تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اپنا کرتہ اٹھا دیا اسید آپ کے پہلو سے لپٹ گئے اور پہلو پر بوسہ دینا شروع کر دیا اور کہنے لگے یا رسول اللہ میں صرف یہی چاہتا تھا یعنی بدن مبارک پر بوسہ دینا۔ (ابوداؤد)

تشریح
لفظ رجل مصابیح میں جس طرح مذکورہ ہے یعنی لام کے زیر کے ساتھ وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ جس شخص کے مزاج میں خوش طبع و ظرافت تھی اور جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بدلہ کا مطالبہ کیا وہ خود اسید ہیں جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہوا لیکن جامع الاصول میں یہ لفظ رجل نہیں بلکہ رجلا منقول ہے چنانچہ روایت کے الفاظ یوں ہیں عن اسید بن حضیر قال ان رجلامن الانصار کان فیہ مزاح فبینما ہو یحدث القوم یضحکم اذ طعنہ النبی۔ (یعنی حضرت اسید سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک شخص تھے جن کے مزاج میں خوش طبعی وظرافت تھی چنانچہ ایک موقع پر جب لوگوں سے باتیں کر رہے اور ان کو ہنسا رہے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پہلو میں لکڑی سے ٹھوکا دیا، اس سے یہ واضح ہوا کہ خوش طبعی و ظرافت سے ہنسانے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بدلہ لینے کا مطالبہ کرنے والے کوئی دوسرے صاحب تھے ، خود حضرت اسید نہیں تھے حضرت اسید تو ان کے واقع کو نقل کرنے والے ہیں۔
چنانچہ طیبی نے جامع الاصول ہی کی روایت کے پیش نظر متن حدیث کی روایت میں توجہیہ و تاویل کر کے اس بات کو ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ صاحب واقعہ خود اسید نہیں ہیں بلکہ وہ محص اس واقعہ کے روای ہیں اور نہوں نے کوشش اس بنا پر کی ہے کہ حضرت اسید ایک جلیل القدر صحابی تھے ان کا تعلق اونچے درجہ کے صحابہ کے زمرہ سے تھا لہذا ان کی جلالت شان سے یہ مستبعد معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کا تعلق خود ان کی ذات سے ہو۔ و اللہ اعلم۔ آنحضرت نے ان کے پہلو میں ایک لکڑی سے ٹھوکا دیا ان الفاظ کا محمول یہ ہے کہ وہ صاحب (خواہ اسید ہوں یا کوئی دوسرے صحابی) مزاح و ظرافت کی پھلجریاں چھوڑ رہے تھے اور اپنی باتوں سے لوگوں کو ہنسا رہے تھے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس موقع پر خوش طبعی فرمائی اور بطور مزاح ان کے پہلو میں لکڑی سے ٹھوکا دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ خوش طبعی و ظرافت کی باتیں کرنا اور ان باتوں کو سننا مباح ہے بشرطیکہ ان کی وجہ سے کسی غیر شرعی اور ممنوع بات کا صدور نہ ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں