اہل فضل کی تعظیم کے لئے کھڑے ہونا جائز ہے۔
راوی:
عن أبي سعيد الخدري قال لما نزلت بنو قريظة على حكم سعد بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم إليه وكان قريبا منه فجاء على حمار فلما دنا من المسجد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم للأنصار قوموا إلى سيدكم . متفق عليه . ومضى الحديث بطوله في باب حكم الأسراء . ( متفق عليه )
" حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب بنو قریظہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم و ثالث بنانے پر اتر آئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص کو حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان کو بلائے اور وہ آ کر بنو قریظہ کا مطالبہ طے کریں) اس وقت حضرت ابوسعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کے قریب ہی فروکش تھے چنانچہ وہ خر پر بیٹھ کر آئے اور جب مسجد کے قریب پہنچے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھ کر یہ فرمایا اے انصار تم اپنے سردار کے لئے کھڑے ہو جاؤ۔ (بخاری ومسلم) اور یہ حدیث پوری تفصیل کے ساتھ قیدیوں کے باب میں گزر چکی ہے۔
تشریح
بنو قریظہ مدینہ کے یہودیوں کے ایک قبیلہ کا نام ہے، سن ٥ھ میں غزوہ خندق کے دوران ان یہودیوں نے جو منافقانہ کردار کیا اور باوجودیکہ سابقہ معاہدہ کے تحت مدینہ کے اس دفاعی مورچہ پر ان یہودیوں کو بھی مسلمانوں کے شانہ بشانہ کفار عرب کی جارحیت کا مقابلہ کرنا چاہیے لیکن انہوں نے اپنی روایتی بدعہدی اور شرارت کا مظاہرہ کیا اور مختلف قسم کی سازشوں کے ذریعہ اس دفاعی مورچہ کو توڑنے کے لئے کفار عرب کے آلہ کار بن گئے ان کی اس بدعہدی اور سازشی کاروائیوں کی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کی فتح سے فارغ ہوتے ہی ان بنو قریظہ کے ساتھ اعلان جنگ کر دیا اور ان سب یہودیوں کو ان کے قلعہ میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا مسلمانوں کی طرف سے بنو قریظہ کے قلعہ کا محاصرہ٢٥ دن تک جاری رہا آخر کار انہوں نے یہ تجویز رکھی کہ ہمارا معاملہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کر دیا جائے جو قبیلہ اوس کے سردار تھے اور قبیلہ اوس بنو قریظہ کا حلیف ان یہودیوں نے کہا کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پنچ اور حکم تسلیم کرتے ہیں وہ ہمارے بارے میں جو بھی فیصلہ کریں گے ہم اس کو بے چون چرا مان لیں گے یہودیوں کا خیال تھا کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ ہمارے حلیف قبیلے سردار ہیں اور ان کے اور ہمارے تعلقات کی ایک خاص نوعیت ہے اس لئے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ یقینا ہمارے حق میں فیصلہ دیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا بھیجا کہ وہ آ کر اس معاملہ میں اپنا فیصلہ دیں، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ اس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام گاہ کے قریب ہی فروکش تھے لیکن چونکہ غزوہ خندق میں وہ بہت سخت مجروح ہو گئے تھے اور خاص طور پر رگ ہفت اندام پر ایک زخم پہنچا تھا جس سے خون برابر جاری تھا اس لئے خچر پر بیٹھ کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اس وقت تک ان کے زخم سے خون جاری تھا لیکن یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اعجاز تھا کہ جب آپ نے ان کو بلوا بھیجا تو خون رک گیا بہر حال حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور انہوں نے پورے معاملہ کے مختلف پہلوؤں پر غور کر کے اور ان کے جرم بد عہدی و غداری کی بنا پر انہی کی شریعت کے مطابق جو فیصلہ دیا اس کا اصل یہ تھا کہ ان کے لڑ سکنے والے مرد قتل کر دیئے جائیں، عورتیں اور بچے غلام بنا لئے جائیں اور ان کے مال و اسباب کو تقسیم کر دیا جائے اس فیصلہ پر کسی حد تک عمل بھی ہوا۔
یہاں حدیث میں اسی وقت کے واقعہ کا ذکر ہے کہ جب حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے کہا کہ دیکھو تمہارے سردار آ رہے ہیں کھڑے ہو جاؤ چنانچہ اکثر علماء اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر کوئی صاحب فضل و قابل تکریم شخص آئے تو اس کے اعزاز و احترام کے لئے کھڑے ہو جانا چاہیے، اس کے برخلاف بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ قوموا الی سیدکم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مراد نہیں تھی سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعظیم و تکریم کے لئے کھڑے ہو جاؤ جیسا کہ کسی بڑے آدمی کے آ جانے پر کھڑے ہونے کا رواج ہے اور جس کی ممانعت ثابت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ چیز عجمیوں کے رائج کردہ تکلفات میں سے ہے نیز یہ عمل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آخر زمانہ حیات تک ناپسندیدہ رہا، یحییٰ کہتے یہں کہ اگر اس ارشاد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد تعظیم و تکریم کے لئے کھڑے ہو جانے کا حکم دینا ہوتا تو آپ اس موقع پر قوموا الی سیدکم، نہ فرماتے بلکہ یہ فرماتے کہ قوموا السیدکم ، لہذا ان کے علماء کے مطابق اس حکم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ دیکھو تمہارے سردار سعد آ رہے ہیں ان کی حالت اچھی نہیں ہے جلدی سے اٹھ کر ان کے پاس جاؤ سواری سے اترنے میں ان کی مدد کرو تاکہ اترتے وقت ان کو تکلیف نہ ہو اور زیادہ حرکت کی بناء پر زخم سے خون نہ بہنے لگے۔ ان علماء کی طرف سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو روایت ہے کہ حضرت عکرمہ بن ابی جہل جب بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے تو آپ ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے تھے، یا حضرت عدی ابن حاتم کی جو یہ روایت نقل کی جاتی ہے کہ انہوں نے کہا میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا آپ میرے لئے یا تو کھڑے ہو جاتے یا اپنی جگہ سے ہل جایا کرتے تھے تو ان روایتوں سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ محدثین نے ان روایتوں کو ضعیف قرار دیا ہے۔
جو حضرات اہل فضل و کمال کے آنے پر کھڑے ہونے کو جائز قرار دیتے ہیں ان کا یہ کہنا کہ اگر حضرت عکرمہ اور حضرت عدی کے بارے میں مذکورہ بالا روایتیں ضعیف ہیں اور ان سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے تو پھر اس روایت کے بارے میں کیا کہا جائے گا جو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں منقول ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لاتے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کے لئے کھڑی ہو جاتی تھیں اور جب حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ ان کے لئے کھڑے ہو جاتے اگر اس روایت کی یہ تاویل کی جائے کہ ان کا کھڑا ہونا اظہار محبت و اتقبال کے طور پر ہوتا نہ کہ تعظیم و اجلال کے طور پر تو یہ تاویل بعید از حقیقت سمجھے جانے سے خالی نہیں ہو گی علاوہ ازیں خود طیبی نے محیی السنۃ سے نقل کیا ہے کہ جمہور علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر اہل فضل و کمال جیسے علماء و صلحاء اور بزرگان دین کا اعزاز و اکرام کرنا جائز ہے علاوہ ازیں محی السنۃ نووی نے یہ لکھا ہے کہ یہ کھڑا ہونا اہل فضل کے آنے کے وقت مستحب ہے اور نہ صرف یہ کہ اس سلسلے میں احادیث بھی منقول ہیں بلکہ اس کی صریح ممانعت کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
مطالب المومنین میں قنیہ کے حوالہ سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ آنے والے کی تعظیم کے طور پر بیٹھے ہوئے لوگوں کا قیام یعنی کھڑے ہو جانا مکروہ نہیں ہے اور یہ کہ قیام بنفسہ مکروہ نہیں ہے بلکہ قیام کی طلب و پسندیدگی مکروہ ہے چنانچہ وہ قیام ہرگز مکروہ نہیں ہوگا جو کسی ایسے شخص کے لئے کیا جائے جو نہ تو اپنے لئے قیام کی طلب رکھتا ہو اور نہ اس کو پسند کرتا ہو۔قاضی عیاض مالکی نے یہ لکھا ہے کہ کھڑے ہونے کی ممانعت کا تعلق اس شخص کے حق میں ہے جو بیٹھا ہوا ہو اور بیٹھے رہنے تک لوگ اس کے سامنے کھڑے رہیں جیسا کہ ایک حدیث میں منقول ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص نظر آئے جو علم و فضل اور بزرگی کا حامل ہو تو اس کی تعظیم و توقیر کے طور پر کھڑے ہو جانا جائز ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں البتہ ایسے شخص کے آنے پر کھڑے ہونا جو نہ صرف یہ کہ اس اعزاز کا مستحق نہ ہو بلکہ اپنے آنے پر لوگوں کے کھڑے ہو جانے کی طلب و خواہش رکھتا ہو ، مکروہ ہے اور اسی طرح بیجاخوشامد و چاپلوسی کے طور پر کھڑے ہونا بھی مکروہ ہے ، نیز دنیاداروں کے لئے کھڑے ہونا اور ان کی تعظیم کرنا بھی نہایت مکروہ ہے اور اس بارے میں سخت وعید منقول ہے۔