آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لئے کھڑے ہونے کو پسند نہیں فرماتے تھے۔
راوی:
عن أنس بن مالك قال لم يكن شخص أحب إليهم من رسول الله صلى الله عليه وسلم وكانوا إذا رأوه لم يقوموا لما يعلمون من كراهيته لذلك . رواه الترمذي وقال هذا حديث حسن صحيح .
" حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب و عزیز کوئی اور شخص نہیں تھا لیکن اس محبت و تعلق کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کھڑے ہونے کو پسند نہیں فرماتے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے یہ حدیث صحیح ہے۔
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انکساری کے اظہار اور اہل تکبر کے طور طریقوں کی مخالفت کی بنا پر اس بات کو پسند نہیں فرماتے تھے کہ جب آپ مجلس میں تشریف لائیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کو دیکھ کر تعظیما کھڑے ہو جائیں بلکہ آپ کھڑے ہونے، بیٹھنے، کھانے پینے اور چلنے پھرنے اور دیگر افعال واخلاق میں ترک۔ ۔ ۔ ۔ پر قائم و عامل تھے جو اہل عرب کی عادت تھی اس لئے آپ نے فرمایا " میں اور میری امت کے متقی لوگ، تکلف سے بیزار ہیں" اور طیبی کہتے ہیں کہ اس چیز کو ناپسند کرنا کمال محبت، صفائی باطن، اور اتحاد قلوب کی بنا پر تھا کہ قلبی اتحاد اور تعلق کا کمال اس طرح کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کا متقاضی نہیں ہوتا۔ حاصل یہ ہے کہ تعظیما کھڑے ہونا اور کھڑے نہ ہونا دونوں کا تعلق وقت و حالات اور اشخاص و تعلقات کے تفاوت پر مبنی ہوتا ہے کہ بعض وقت اور بعض حالات میں آنے والے کے لئے احترما کھڑے ہو جانا مناسب ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں کھڑے نہ ہونا ہی مناسب ہوتا ہے خاص طور پر اس صورت میں جب کہ یہ معلوم ہو کہ آنے والا کھڑے ہونے کو پسند نہیں کرتا یا آپ کے تعلقات۔ ۔ ۔ ۔ کے محتاج نہیں ہیں، نیز کسی ایسے شخص کے لئے کھڑے ہونا جائز نہیں ہے جو کسی بھی طرح کی دینی فضیلت نہیں رکھتا بلکہ کوئی دنیاوی حیثیت رکھتا ہے۔